تحریر : قاضی ارباب احمد
ایک (یوتھیا) طبقہ اپنے سیاسی باپو پر پچھلے کئی سالوں سے اس بات پر اچھل کود کر رہا تھا کہ انکے سیاسی باپو نے اقوام متحدہ میں تقریر کر کے سکندر اعظم کو پیچھے چھوڑ دیا ہو اور بلکل اسی طرح بلکہ دو ہاتھ اوپر کر کے دوسرے(پٹواری) سیاسی طبقے کے سیاسی باپو نے کل اقوام متحدہ میں تقریر کی ایسے جیسے ہٹلر کو پیچھے چھوڑ دیا ہو
بات مختصر اتنی سی ہے پیارو کہ تقریروں کی بات کی جائے تو تاریخ بھرے پری ہے مقررین سے بات ہے اصل میدان کی بات ہے اصل کردار افکار عمل کی یہ تقریریں میری اور آپ ہم عوام کو ذیب دیتی ہیں جنہوں نے اپنا مدعہ احکام بالا کے سامنے رکھنا ہوتا ہے نا کہ یہ بھاشن جھاڑنا ان حکمرانوں کا کام ہے ان کا کام عملی کر کے دکھانا ہے ہمارا مسئلہ یہ کہ ہم دو چار جہاز گرا ایک صدی اس جشن کے احاطے میں گھومتے رہتے ہیں میں بلکل اس حق میں ہوں اپنی فتوحات کا جشن منائیں مگر ساتھ جو حقیقی عوامی مسائل ہیں جس سے آپ حقیقی معنوں میں مضبوط ہوتے ہیں معاشرتی سیاسی سماجی معاشی مسائل جیسا کہ ہر سال آدھا پاکستان سیلاب کی نظر ہوجاتا ہے لاکھوں جوان تعلیم روزگار کے لیہے باہر دھکے کھاتے ہیں بہترین علاج کی سہولیات آج بھی محدود ہیں لاکھوں کیسز عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں نسلیں ختم ہو جاتی کیس ختم نہیں ہوتے ان تمام مسائل پر جب عبور حاصل ہو جائے تب ہم تقریروں پر نازا ہوں نا کہ صرف طیارے گرا کر
نوٹ : میں ایک پاکستانی شہری ہوں اور مجھے اس ملک کا آئین آرٹیکل 19 اجازت دیتا ہے کہ میں اپنی رائے رکھنے کا حق رکھتا ہے اس لیئے کسی کو تکلیف نہیں ہونی چالہئے میری گفتار پر البتہ میں تنقید بھی کرتا اور اچھے عمل کی تعریف بھی میرا کوئی سیاسی باپو نہیں البتہ استاد ضرور ہیں ع ل ا م ہ خ ا د م ح س ی ن رضوی جن سے نظام کا شعور سیکھا اللہ ان کے درجات بلند فرمائے میرے لیئے سب برابر ہیں جو اچھا کام کرے گا اس کی بھرپور حمایت ہو گی اور جو نظریہ اسلام سے پاکستان سے عوامی سیاسی معاشی سماجی مفاد سے ہٹ کر کے گا اس کی مخالفت بھی ہو گی یہ نہیں کہ سہی اور غلط دونوں ایک ہی ترازو میں بلکل نہیں
.jpg)
.jpg)