ملتان شہر کی تاریخ: آغاز، ارتقاء اور تہذیبی سفر‎

ملتان شہر کی تاریخ: آغاز، ارتقاء اور تہذیبی سفر

ملتان شہر کی تاریخ: آغاز، ارتقاء اور تہذیبی سفر

تحریر: عاقب جتوئی

تعارف

ملتان، برصغیر کا ایک ایسا شہر ہے جو اپنی قدامت، روحانیت، مزاحمت، علم و ادب، اور روحانی شخصیات کے باعث منفرد مقام رکھتا ہے۔ دریائے چناب کے کنارے واقع یہ شہر ہزاروں برسوں سے انسانی تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں ہر دور نے اپنے نقوش چھوڑے، ہر تہذیب نے اپنا رنگ بکھیرا، اور ہر مکتبِ فکر نے یہاں سے فیض پایا۔ اس مضمون میں ہم تحقیقی زاویے سے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ملتان کب آباد ہوا، اس کے ابتدائی آثار کیا ہیں، اور یہ شہر وقت کے ساتھ کس طرح ارتقاء پذیر ہوا۔

ملتان کے آغاز پر تحقیق

ملتان کی قدامت کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض محققین اس کا تعلق وادی سندھ کی ابتدائی تہذیبوں سے جوڑتے ہیں جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ یہ شہر ویدک دور کا باقیہ ہے۔ آثارِ قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر احمد حسن دانی کے مطابق ملتان کی ابتدا ہڑپہ اور موئن جو دڑو کی تہذیب سے جڑی ہوئی ہے، اور یہاں کی مٹی میں وہی تہذیبی رنگ موجود ہیں جو دریائے سندھ کی ابتدائی بستیوں میں پائے گئے۔

موجودہ شہر کے مضافات میں پائے جانے والے قدیم ٹیلے، جنہیں مقامی طور پر "پرانا قلعہ" یا "کاسپاپور" کہا جاتا ہے، اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ یہ شہر کم از کم 2500 قبل مسیح سے آباد ہے۔ یہاں برتن سازی، دھات کاری، اور عبادتی مقامات کے آثار پائے گئے ہیں، جو وادی سندھ کی ثقافت کے ہم پلہ ہیں۔

سورج دیوتا کی سرزمین

ملتان قدیم ہندوستانی مذاہب خصوصاً ہندو مت میں بھی ایک مقدس شہر کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں سورج دیوتا کا عظیم مندر موجود تھا، جس کی شہرت دور دراز علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ساتویں صدی کے مشہور چینی سیاح ہیون سانگ نے ملتان کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں سورج کی پرستش کے لیے ایک بلند و بالا مندر قائم تھا، جس میں سونے کی مورتیاں اور جواہرات سے آراستہ چھتریاں نصب تھیں۔

"ملتان ایک خوشحال، پُر امن اور مذہبی شہر تھا، جہاں ہزاروں زائرین سورج دیوتا کی عبادت کے لیے آتے تھے۔"

اسلامی عہد کا آغاز

ملتان میں اسلامی عہد کا آغاز 711-712ء میں محمد بن قاسم کے ہاتھوں ہوا، جب انہوں نے سندھ اور مکران کو فتح کیا اور راجہ داہر کو شکست دی۔ تاریخ طبری اور فتوح البلدان جیسے قدیم عربی ماخذوں میں ملتان کو "مقام الشمس" یعنی سورج کا مقام کہا گیا ہے، جو اس کے سابقہ مذہبی پس منظر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

محمد بن قاسم نے نہ صرف یہاں اسلامی حکومت قائم کی بلکہ ایک جامع مسجد کی بنیاد بھی رکھی، جو اس وقت کے سورج مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مسجد کئی صدیوں تک اسلامی علوم اور قضاء و فتویٰ کا مرکز بنی رہی۔ ابن حوقل اور المقدسی جیسے جغرافیہ دانوں نے ملتان کو ایک خوشحال تجارتی مرکز قرار دیا، جہاں عرب، ایرانی اور وسط ایشیائی تاجر آتے تھے۔

صوفیاء کا شہر

اسلامی دور کے بعد ملتان نے روحانیت کا روپ اختیار کیا۔ 12ویں اور 13ویں صدی میں صوفیاء کرام کی آمد نے اس شہر کو "مدینة الاولیاء" بنا دیا۔ یہاں کے نمایاں اولیاء میں حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت شاہ شمس تبریز، حضرت حامد الدین ہاکم اور دیگر کئی بزرگ شامل ہیں۔ ان بزرگوں کے مزارات آج بھی روحانی و ثقافتی مرکز کے طور پر موجود ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ملتان

1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ملتان نے ایک بار پھر اپنی شناخت بحال کی۔ اسے جنوبی پنجاب کا مرکزی شہر قرار دیا گیا اور زرعی، تجارتی، تعلیمی اور روحانی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی۔ اب یہ شہر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں "ملتانی مٹی"، آم، اولیاء کرام، اور تاریخی ورثے کی بدولت پہچانا جاتا ہے۔

نتیجہ

ملتان کی تاریخ صرف ایک شہر کی کہانی نہیں بلکہ برصغیر کی تہذیبی ارتقاء کی داستان ہے۔ اس کی مٹی تہذیبوں کی گواہ ہے، اس کے آثار وقت کی گزرگاہوں کے نشان ہیں، اور اس کے در و دیوار روحانیت کی خوشبو سے مہک رہے ہیں۔

Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !