ایک ہیرو کی تنہائی: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی کا آخری باب‎



ایک ہیرو کی تنہائی: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی کا آخری باب

تحریر: عاقب جتوئی

وقت کی گردش عجب رنگ دکھاتی ہے۔ کچھ چہروں پر وہ تمغے سجاتی ہے، اور کچھ پر پردۂ فراموشی تان دیتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا ہی چہرہ ہے، جس پر قوم نے پہلے فخر کا تاج رکھا اور پھر خاموشی کی چادر اوڑھا دی — وہ چہرہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے۔ ایک ایسا محبِ وطن، جس نے مادرِ وطن کو ناقابلِ تسخیر قوت بخشی، مگر زندگی کے آخری دس برسوں میں تنہائی، تحقیر اور نظر بندی کے لمحات اس کی تقدیر بنا دیے گئے۔

سنہ 2004 کا وہ لمحہ پاکستانی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا، جب ایک قومی ہیرو کو ٹی وی اسکرین پر لا کر، دنیا کے سامنے "اقرارِ جرم" کروایا گیا۔ اس اعتراف کے پیچھے کتنا سچ تھا اور کتنا دباؤ، یہ آج بھی مورخین کے لیے ایک سوال ہے، مگر سچ یہ ہے کہ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کی زندگی یکسر بدل گئی۔ جس ملک کے لیے وہ دنیا کی مخالفت مول لے کر ایٹمی رازوں کی دنیا میں اترا، اسی ملک نے اسے گھر کی چار دیواری میں قید کر دیا۔ زندگی جو کبھی تحقیق، تخلیق اور قومی خدمت کے جذبوں سے روشن تھی، اچانک جمود، گمنامی اور نگرانی کی دلدل میں اتر گئی۔

حکومت نے ان پر نہ صرف سفری اور ابلاغی پابندیاں عائد کیں بلکہ انہیں سائنسی حلقوں سے بھی جدا کر دیا گیا۔ ملاقاتوں پر پابندیاں، میل جول پر روک، حتیٰ کہ اخبار میں لکھے گئے مضامین بھی سنسر کیے جانے لگے۔ ایک ایسا شخص، جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ستون تھا، آہستہ آہستہ اجنبی بنا دیا گیا۔ ان کی تحریروں میں اب وہ جوش کم اور دکھ کا رنگ زیادہ ہونے لگا۔ وہ بارہا اس محرومی کا ذکر کرتے، کہ وہ جس قوم کے لیے جئے، اسی نے انہیں جیتے جی فراموش کر دیا۔

نفسیاتی اعتبار سے یہ نظر بندی محض جسمانی نہیں تھی، بلکہ ایک ذہنی قید بھی تھی۔ ایک فعال اور پرجوش ذہن، جو مسلسل تحقیق اور خدمت کے جذبے سے سرشار تھا، اسے جمود کے کمرے میں بند کر دیا گیا۔ قریبی ذرائع کے مطابق وہ اکثر خاموش رہتے، چہرے پر افسردگی کی چھاپ گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ان کی مسکراہٹ، جو کسی دور میں قومی افتخار کی علامت تھی، اب تنہائی کے صحرا میں گم ہو چکی تھی۔

معاشی طور پر اگرچہ حکومت نے ان کے لیے کچھ مراعات رکھی تھیں، مگر عزتِ نفس کے تقاضے کہیں بلند ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی ادارے میں کھل کر خدمات انجام نہیں دے سکتے تھے۔ نہ علمی تقریبات میں شرکت، نہ کسی نئی سائنسی ٹیم کی رہنمائی، نہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت — ان کی علمی دنیا محدود ہو کر چند صفحات اور قلم تک رہ گئی تھی۔

وقت گزرتا گیا، اور قوم کی اجتماعی یادداشت سے ان کا ذکر آہستہ آہستہ محو ہونے لگا۔ نہ یومِ دفاع پر ان کا نام گونجتا، نہ تعلیمی اداروں میں ان کی خدمات کو خراج پیش کیا جاتا۔ یہ وہی قوم تھی جس نے کبھی ان کے نام کے نعرے لگائے تھے، مگر اب خامشی ان کے گرد پھیلتی جا رہی تھی۔

10 اکتوبر 2021 کو، جب وہ اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے، تو کچھ دیر کے لیے ملک کی فضا میں ان کا ذکر ضرور گونجا۔ ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز دی، سوشل میڈیا پر تعزیت کے پیغامات آئے، ریاستی سطح پر جنازہ بھی ہوا، مگر یہ سب کچھ اس ہیرو کے شایانِ شان نہ تھا، جس نے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وطن کو ایٹمی طاقت بخشی تھی۔ شاہ فیصل مسجد میں جنازے کی جگہ ان کا جسد خاکی ایچ-8 قبرستان میں دفنایا گیا، جہاں نہ وہ قومی وقار نظر آیا، نہ ہی وہ عزت جو ان کا حق تھا۔

یہ کہانی ایک انسان کی نہیں، ایک المیے کی ہے۔ وہ المیہ جس میں قومیں اپنے ہیروز کو پہچان کر بھی نظر انداز کرتی ہیں۔ عبدالقدیر خان کا آخری عشرہ اس سوال کی گونج ہے جو آج بھی پاکستان کی فضا میں معلق ہے: "کیا ہم نے اپنے محسنوں سے انصاف کیا؟"

حوالہ جات:

  • ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کالم (نوائے وقت، جنگ)
  • بی بی سی اردو، 2004–2021
  • Dawn News Archives
  • “Nuclear Black Market” – IAEA Report
  • کتاب: Enigma of A.Q. Khan از Zahid Malik
Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !