![]() |
| اورینٹل کالج لاہور |
اورینٹل کالج لاہور: مشرقی علوم کا قلعہ
انیسویں صدی کا برصغیر علم و فکر کی ایک ایسی دو راہے پر کھڑا تھا جہاں ایک طرف مغربی استعمار کی یلغار تھی اور دوسری طرف مشرقی علوم اور تہذیب اپنی بقا کے لیے کوشاں تھی۔ ایسے میں لاہور کی سرزمین پر ایک علمی مینار کی بنیاد رکھی گئی جسے ہم آج اورینٹل کالج کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ادارہ محض ایک تعلیمی درسگاہ نہ تھا بلکہ ایک تہذیبی استعارہ تھا، جہاں مشرق کے بکھرتے ہوئے علمی موتیوں کو اکٹھا کیا گیا، سنوارا گیا، اور آنے والی نسلوں کے حوالے کیا گیا۔ اس ادارے کا قیام 1864ء میں ہوا، اور اس کے بانی ڈاکٹر جی ڈبلیو لائیٹنر تھے، جو ایک مایہ ناز مستشرق، محقق اور مشرقی علوم کے عاشق تھے۔
اورینٹل کالج کے قیام کا پس منظر برصغیر میں اس احساس سے جڑا تھا کہ مغربی علوم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم و فنون کو محفوظ رکھنے کے لیے مخصوص اداروں کی ضرورت ہے۔ کالج کے قیام کا مقصد صرف تعلیم دینا نہ تھا بلکہ مشرقی تہذیب، زبان، ادب، فلسفہ اور مذہب کی حفاظت اور ترویج بھی تھا۔ اس ادارے میں عربی، فارسی، اردو، سنسکرت، فقہ، فلسفہ، منطق اور اسلامیات جیسے علوم کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ یہاں وہ مضامین پڑھائے جاتے تھے جو نہ صرف علم کی گہرائی رکھتے تھے بلکہ تہذیبی شناخت کو مضبوط کرنے والے بھی تھے۔
اورینٹل کالج لاہور نے محض تعلیم و تدریس تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ تحقیق اور ادب کے میدان میں بھی ایسی گراں قدر خدمات انجام دیں جو آج بھی اردو تحقیق و تنقید کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔ اس ادارے سے وابستہ کئی ایسی قد آور شخصیات گزر چکی ہیں جنہوں نے اردو ادب میں ناقابلِ فراموش نقوش چھوڑے۔ حافظ محمود شیرانی، جنہوں نے اردو کی ابتدا پر تحقیق کی، مولوی محمد شفیع، جو اسلامیات کے ممتاز استاد تھے، اور سید محمد عبداللہ، جنہوں نے اردو تنقید کو ایک نیا زاویہ دیا، ان سب کی علمی پرورش اسی درسگاہ میں ہوئی۔ اسی کالج کے علمی ماحول نے "اورینٹل کالج میگزین" جیسے معیاری تحقیقی جریدے کو جنم دیا، جس نے اردو زبان میں اعلیٰ تحقیقی معیار قائم کیا۔
اورینٹل کالج کے احاطے میں صرف علم کے دروس نہیں ہوتے تھے بلکہ تہذیب سانس لیتی تھی۔ یہاں کے کمرے صرف درسگاہیں نہ تھے بلکہ فکری مکالمے کے مراکز تھے، جہاں غالب کی سطر، حالی کی سادگی، شبلی کی فکر اور اقبال کا فلسفہ ایک ساتھ گونجتا تھا۔ اس درسگاہ نے ادب کو تحقیق سے جوڑا، اور تحقیق کو تہذیب سے، یوں ایک ایسی تعلیمی فضا پروان چڑھی جہاں علم، ادب اور ثقافت باہم مربوط ہو گئے۔
آج بھی اگر کوئی طالب علم اورینٹل کالج کے در و دیوار کو دیکھے تو اسے ان چہروں کی جھلک دکھائی دے گی جنہوں نے اردو زبان و ادب کو جلا بخشی۔ یہ ادارہ آج بھی پنجاب یونیورسٹی کا ایک عظیم شعبہ ہے، جو مشرقی علوم کے تحفظ اور ترویج میں سرگرم عمل ہے۔ اورینٹل کالج محض ایک عمارت یا ادارہ نہیں بلکہ ایک فکری، تہذیبی اور ادبی ورثہ ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جو ہر طالب علم کو دعوتِ فکر دیتی ہے کہ وہ اپنے ماضی سے جڑے، اور اس روشنی کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ اورینٹل کالج لاہور وہ مینارِ علم ہے جس نے تاریک وقتوں میں مشرقی تہذیب کو روشنی بخشی، اسے سنوارا اور اسے آنے والے وقت کے سپرد کیا۔ آج بھی جب کوئی اس ادارے میں قدم رکھتا ہے تو وہ صرف ایک طالب علم نہیں بنتا، بلکہ تہذیب و تحقیق کا وارث بن جاتا ہے۔
.jpg)
.png)