اقلیتوں کے لیے آئینی ضمانتیں

 

اقلیتوں کے لیے آئینی ضمانتیں 

(خواب یا حقیقت؟)

تحریر:عرفان محمد اسحاق بانکری
Constitutional guarantees for minorities by Irfan Muhammad Ishaq Bankari



              بھارت کا شمار دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتوں میں ہوتا ہے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد جب بھارتی دستور ساز اسمبلی نے ایک نئے آئین کی تشکیل کی تو اس کا بنیادی مقصد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل تھا جو مذہب، ذات، نسل یا زبان کی بنیاد پر کسی قسم کے امتیاز سے پاک ہو۔ دستورِ ہند نے اپنے شہریوں کو مساوات، آزادی، انصاف اور بھائی چارے کے اصولوں پر متحد کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اس آئین میں اقلیتوں کو نہ صرف بنیادی انسانی حقوق دیے گئے بلکہ ان کے مذہبی، ثقافتی اور تعلیمی تشخص کے تحفظ کے لیے خصوصی دفعات بھی شامل کی گئیں۔۔۔۔۔


لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سوال شدت اختیار کرتا گیا کہ کیا یہ آئینی ضمانتیں صرف تحریری وعدے ہیں یا عملی طور پر بھی ان کا نفاذ ممکن ہوا ہے؟ کیا بھارت میں اقلیتیں واقعی خود کو محفوظ اور مساوی شہری سمجھتی ہیں، یا انہیں سیاسی و سماجی سطح پر تعصب اور امتیاز کا سامنا ہے؟

        انہی سوالات کا ایک تحقیقی تجزیہ میں نے اس آرٹیکل میں کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔

بھارتی دستور کے مطابق بھارت ایک ''سیکولر'' ریاست ہے۔ یعنی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور وہ تمام مذاہب کے ساتھ برابری کا سلوک کرے گی۔ اس اصول کی بنیاد پر آئین میں کئی دفعات شامل کی گئیں جو اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔۔۔

''آرٹیکل 25 تا 28 '' مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے، اس کی تبلیغ کرے اور مذہبی رسوم ادا کرے۔

''آرٹیکل 29'' اقلیتوں کو اپنے مخصوص ثقافتی اور لسانی تشخص کو محفوظ رکھنے کا حق دیتا ہے۔

''آرٹیکل 30'' اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دیتا ہے تاکہ وہ اپنی نسلوں کو اپنے عقائد اور ثقافت کے مطابق تعلیم دے سکیں۔...


اسی طرح ''نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز ایکٹ 1992'' اس قانون کے تحت اقلیتوں کے مفاد کے تحفظ کے لیے ایک سرکاری کمیشن قائم کیا گیا جو ان کے حقوق کی نگرانی کرتا ہے۔.....


یہ تمام دفعات بھارت کے سیکولر ازم کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔ کاغذ پر یہ اصول نہایت مضبوط اور مثالی دکھائی دیتے ہیں، لیکن جب ہم زمینی حقیقت کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو صورتِ حال خاصی مختلف نظر آتی ہے۔....

عملی صورتِ حال یہ ہے جیسے خواب اور حقیقت میں فاصلہ ہو۔۔۔

آئین کی تحریر میں مساوات کا وعدہ تو کیا گیا ہے، مگر حقیقت میں اقلیتیں اکثر خوف، غیر یقینی اور امتیاز کا شکار نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر مسلمان، جو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، گزشتہ چند دہائیوں میں سیاسی اور سماجی تنہائی کا سامنا کر رہے ہیں۔۔۔۔

مذہبی تشدد، بابری مسجد کی شہادت (1992)، گجرات فسادات (2002)، اور حالیہ دَور میں مسلم مخالف فسادات کے واقعات نے اقلیتوں کے اعتماد کو گہری چوٹ پہنچائی ہے۔۔۔

سماجی تفریق، روزگار، تعلیم، اور رہائش کے مواقع میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کو اکثر امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔۔۔۔


قانونی چیلنجز،کئی ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی اور گائے کے ذبح سے متعلق قوانین کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی حقوق کو محدود کر دیتے ہیں۔۔۔۔

عدلیہ و میڈیا کا کردار بھی اس پر ایک طرفہ دکھائی دیتا ہے۔اگرچہ عدلیہ نے کئی مواقع پر اقلیتوں کے حق میں فیصلے دیے ہیں، لیکن عمومی تاثر یہ ہے کہ میڈیا اور ریاستی ادارے اکثر اکثریتی جماعت (طبقے)کے دباؤ میں رہتے ہیں۔۔۔


      وہی بھارت کی سیاست میں مذہب کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ 1980ء کی دہائی سے ''ہندو قوم پرستی''   ''ہندوتو'' اور ''بھگوا کرن'' مضبوط ہوا ہے، جس کے نتیجے میں سیکولر ازم کی عملی حیثیت کمزور پڑی ہے۔ چند نفرتی سیاسی پارٹیاں اور اس سے منسلک تنظیموں نے مذہب کو سیاسی طاقت کے طور پر استعمال کیا، جس سے اقلیتوں کے تحفظ کا آئینی وعدہ ہر بار مجروح ہوا ہے۔۔۔۔

چند دہائیوں پہلے تک بھارت کی شناخت ''کثرت میں وحدت'' کے نظریے سے کی جاتی تھی، مگر آج یہ وحدت مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔ کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق، بھارت کی جمہوریت اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے جہاں آئین کی اصل روح یعنی ''مساوات'' اور'' سیکولرزم''  سیاسی مفادات کے نیچے دب گئی ہے۔...


بھارتی آئین نے جو نظریاتی بنیاد فراہم کی تھی، وہ بلاشبہ دنیا میں ایک مثال تھی۔ لیکن آئینی دفعات تب ہی مؤثر ہو سکتی ہیں جب ان پر دیانت داری اور غیر جانب داری سے عمل کیا جائے۔ آئینی ضمانتیں صرف اُس وقت معنی رکھتی ہیں جب ریاستی ادارے، عدلیہ، میڈیا اور عوام سب اس کے اصولوں کو تسلیم کریں.....


     حقیقت یہ ہے کہ اقلیتوں کے لیے آئینی تحفظ موجود تو ہے، مگر ان کا نفاذ کمزور ہے۔ بھارت کی اقلیتیں خود کو مساوی شہری محسوس کرنے کے بجائے اکثر مشتبہ نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ان کے تعلیمی ادارے سرکاری دباؤ میں آ جاتے ہیں، مذہبی آزادی محدود کی جاتی ہے، اور سیاسی نمائندگی کمزور رہتی ہے۔۔۔۔۔

یہ صورتحال نہ صرف بھارت کے سیکولر کردار پر سوال اٹھاتی ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کی جمہوری ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہے۔

بھارت کے آئین نے اقلیتوں کو جو حقوق دیے ہیں، وہ اگر حقیقی معنوں میں نافذ کیے جائیں تو بھارت دنیا کی ایک مثالی جمہوریت بن سکتا ہے۔ لیکن اگر آئین محض ایک ''تحریری وعدہ'' بن کر رہ جائے، تو مساوات، آزادی،انصاف اور اخوت جیسے اصول صرف کتابی باتیں بن جائیں گے۔۔۔۔ 


اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی قیادت، عدلیہ، اور عوام سب مل کر آئین کی اصل روح کو زندہ کریں۔ اقلیتوں کے حقوق کا احترام صرف ان کا نہیں بلکہ پوری قوم کی سالمیت اور جمہوریت کی بقا کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ جب کسی ملک میں ایک طبقہ خوف کے سائے میں جیے، تو وہاں انصاف اور مساوات کا خواب کبھی حقیقت نہیں بن سکتا۔۔۔۔۔


        بھارتی دستور نے اقلیتوں کو جو تحفظ دیا، وہ آج ایک سوال بن چکا ہے۔ کیا یہ خواب کبھی حقیقت بنے گا، یا آنے والی نسلیں بھی آزادی، مساوات،انصاف اور اخوت کے وعدے کو کتابوں میں ہی تلاش کرتی رہیں گی؟

ازقلم۔۔۔۔۔۔

عرفان محمد اسحاق بانکری

(سوشل اُردو ہائی اسکول سولاپور)

Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !