![]() |
خاموش یلغار — پاکستان میں LGBTQ ایجنڈا اور حکومتی بےحسی
خاموش یلغار — پاکستان میں LGBTQ ایجنڈا اور حکومتی بےحسی
تحریر: عاقب جتوئی
گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام پر کئی نئی تحریکیں ابھری ہیں، جن میں سب سے متنازع اور تہذیبی اعتبار سے خطرناک تحریک LGBTQ کی ہے۔ مغرب میں اس تحریک نے قانون، سماج اور تعلیم کے میدانوں میں گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اب یہ تحریک ترقی پذیر اسلامی ممالک، بالخصوص پاکستان میں "خاموش تبلیغ" کے ذریعے جڑیں پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ LGBTQ تحریک صرف فرد کے حقوق کی بات نہیں کرتی بلکہ دراصل یہ مرد و عورت کے فطری رشتے، خاندانی نظام اور اسلامی تہذیب کی بنیادوں کو ہلانے کی کوشش ہے۔ مغربی ادارے، اقوام متحدہ اور بعض عالمی این جی اوز اسے "جنسی شناخت" یا "صنف کی آزادی" کے عنوان سے فروغ دیتے ہیں، تاکہ عوامی سطح پر اس کا اصلی چہرہ چھپا رہے۔
پاکستان میں متعدد ایسی غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم ہیں جو بظاہر "صحت"، "تعلیم"، یا "عورتوں کے حقوق" کے نام پر کام کر رہی ہیں، مگر پس پردہ ان کا ایجنڈا LGBTQ نظریے کو فروغ دینا ہے۔ یہ تنظیمیں اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں "جنسی آگاہی" کے عنوان سے ایسے مواد کو فروغ دیتی ہیں جو نئی نسل کے اذہان میں جنس اور شناخت کے بارے میں الجھن پیدا کرتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر "non-binary" اور "gender fluid" جیسے مغربی تصورات کو نہایت چالاکی سے "جدید خیالات" کے لبادے میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ، بعض این جی اوز "خواجہ سرا بل" جیسے قوانین کے ذریعے "gender identity" کو قانونی تحفظ دلوانے کی کوشش کر رہی ہیں، جہاں کسی بھی شخص کو صرف زبانی بیان پر مرد یا عورت تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کا قانون پاکستان جیسے اسلامی ملک میں نہ صرف شرعی احکام سے متصادم ہے بلکہ آئندہ کے لیے LGBTQ ایجنڈے کو کھلی راہ دینے کے مترادف ہے۔
ان تمام سرگرمیوں کے باوجود حکومتِ پاکستان اور ریاستی ادارے یا تو خاموش ہیں، یا پھر بین الاقوامی دباؤ کے تحت مصلحت کا شکار۔ بعض مواقع پر مغربی اداروں کی فنڈنگ کے بدلے میں ایسی پالیسیوں کی خاموش منظوری دے دی جاتی ہے جو نہ صرف ملکی نظریے بلکہ عوامی جذبات کے بھی خلاف ہے۔ یہ خاموشی خود ایک المیہ ہے، جو آنے والے وقت میں ایک بڑے تہذیبی سانحے کی بنیاد بن سکتی ہے۔
پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے جس کی بنیاد "لا الہ الا اللہ" پر رکھی گئی تھی۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہم جنس پرستی کو قومِ لوط کا بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے اور اس پر سخت ترین عذاب کی وعید ہے۔ فقہا کا اتفاق ہے کہ ایسا عمل اسلامی معاشرے میں ناقابل قبول ہے اور ریاست کو چاہیے کہ وہ اس فتنے کی سرکوبی کے لیے قانونی، تعلیمی اور سماجی اقدامات کرے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ معاشرہ اس خاموش یلغار کے خلاف بیدار ہو۔ اسلامی نظریاتی کونسل، دینی مدارس، جامعات، اور ذرائع ابلاغ کو متحد ہو کر قوم کو آگاہی دینا ہوگی۔ یہ صرف ایک جنسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی، تہذیبی اور قومی بقاء کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم نے اس پر بروقت آواز نہ اٹھائی تو وہ وقت دور نہیں جب ہماری نئی نسل اپنی شناخت، اقدار اور دین سے کٹ چکی ہوگی۔
.jpg)
