میر گل خان نصیر: ایک ادبی و فکری مجاہد‎

میر گل خان نصیر: ایک ادبی و فکری مجاہد



میر گل خان نصیر: ایک ادبی و فکری مجاہد

(ادبی و تحقیقی مقالہ)
تحریر: عاقب جتوئی

تمہید

بلوچستان کی تاریخ علم و ادب اور سیاست کے ایسے ہیروز سے مزین ہے جنہوں نے نہ صرف الفاظ کی روشنی سے اپنی قوم کی راہیں روشن کیں بلکہ سیاسی قربانیوں سے آزادی کا مقدمہ بھی لڑا۔ ان ہی ہستیوں میں نمایاں نام میر گل خان نصیر کا ہے، جو ایک ہمہ جہت شخصیت، شاعر، محقق، سیاستدان اور مزاحمت کا استعارہ تھے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلو ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنی کتاب "عشاق کے قافلے: میر گل خان نصیر" میں عمدگی سے بیان کیے ہیں۔

ابتدائی زندگی اور فکری بنیادیں

میر گل خان نصیر کی پیدائش 1914 میں نالس، ضلع خضدار میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی، اور بعد ازاں کوئٹہ اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں بھی علم کے موتی سمیٹے۔ ان کی علمی نشو و نما اس دور میں ہوئی جب برصغیر نوآبادیاتی نظام کے خلاف برسرپیکار تھا۔ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ فکری جستجو کے حامل فرد تھے، جنہوں نے کم عمری ہی میں کتابوں سے رشتہ جوڑ لیا تھا۔

ادبی خدمات

میر گل خان نصیر نہ صرف ایک توانا شاعر تھے بلکہ انہوں نے بلوچی زبان و ادب کی تشکیلِ نو میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی شاعری میں قوم، مزاحمت، آزادی، رومانویت اور تاریخ کے گہرے رنگ نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری کا اسلوب بلند تخیلاتی، علامتی اور جذبے سے بھرپور ہے۔ ڈاکٹر مری کے مطابق وہ ایک ایسا "قلمی سپاہی" تھے جو شعر کے ذریعے جہاد کرتے تھے۔

انہوں نے کئی شعری مجموعے اور تحقیقی کتابیں تحریر کیں جن میں "بلوچی ادب کی تاریخ"، "بلوچ قوم کی جدوجہد"، اور "شہسوار" جیسی تحریریں شامل ہیں۔ ان کی زبان و بیان میں سادگی کے ساتھ ادبی بانکپن اور فکری گہرائی موجود ہے۔

سیاسی جدوجہد

میر گل خان نصیر کی سیاست خالص نظریاتی اور عوامی تھی۔ وہ کلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے بانیوں میں شامل رہے، اور بلوچستان کی آزادی و خودمختاری کے علمبردار بنے۔ ان کی سیاست کا مرکز جمہوریت، حق خودارادیت اور معاشی انصاف تھا۔ وہ کئی بار قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرے لیکن اپنے نظریے سے کبھی انحراف نہ کیا۔

ڈاکٹر مری کے مطابق، میر گل خان کی سیاسی جدوجہد نے بلوچ سیاست کو نظریاتی بنیادیں فراہم کیں، اور انہوں نے اپنے قلم و قدم سے قومی تحریک کو زندہ رکھا۔

صحافت اور فکری اظہار

میر گل خان نصیر ایک سرگرم صحافی بھی تھے۔ انہوں نے "البلوچ"، "نئے بلوچ" جیسے رسائل نکالے جن میں انہوں نے نوآبادیاتی مظالم، جاگیردارانہ نظام اور مقامی سیاسی سازشوں کو بے نقاب کیا۔ وہ الفاظ کی حرمت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ڈاکٹر مری کے مطابق ان کی صحافت بلوچ قوم کے لیے بیداری کا ذریعہ بنی اور ان کا قلم تاریخ کے ظلم کے خلاف عدالتی کٹہرہ بن گیا۔

شخصیت اور اخلاقی عظمت

میر گل خان ایک سادہ، اصول پسند اور عاجز انسان تھے۔ ان کی شخصیت میں دانش، وقار اور مروّت نمایاں تھی۔ وہ کبھی اقتدار یا دولت کے پیچھے نہیں بھاگے بلکہ فقر اور استغنا کو فخر سمجھا۔ ان کی سوانح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ صرف لکھنے والے نہیں، بلکہ جینے والے شاعر تھے۔ ڈاکٹر مری انھیں "محبت کا فلسفی، تاریخ کا راوی اور سیاست کا سپاہی" کہتے ہیں۔

علمی و ادبی مقام

میر گل خان نصیر نے بلوچ ادب کو عالمی ادبیات کے برابر لاکھڑا کیا۔ انہوں نے ادب کو محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ جدوجہد کا وسیلہ بنایا۔ ان کا انداز تحریر علامتی، فکری اور بیدار کن ہے۔ ان کی شاعری آج بھی نوجوانوں کو زبان، تہذیب اور آزادی کا شعور دیتی ہے۔

نتیجہ

میر گل خان نصیر کی زندگی ادب، سیاست، قربانی، اخلاص اور علم کا ایسا امتزاج ہے جو ہر قوم کو فخر سے بلند کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کی یہ کتاب اس لحاظ سے نایاب ہے کہ اس میں ایک کردار کو نہ صرف بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے فکری پس منظر کو کھولا گیا ہے۔ گل خان نصیر کی شخصیت محض ایک فرد کی نہیں، بلکہ بلوچ تاریخ کا آئینہ ہے۔

حوالہ جات

  1. ڈاکٹر شاہ محمد مری، عشاق کے قافلے: میر گل خان نصیر، سنگت اکیڈمی، کوئٹہ، 2015۔
  2. بلوچ ادب پر مضمون، sangatacademy.net
  3. بلوچ سیاست کی تاریخ، البلوچ (رسائل و جرائد، آرکائیو)
  4. اردو دائرہ معارف، "میر گل خان نصیر – ادیب و سیاستدان"
  5. ڈاکٹر مری کے انٹرویوز و تحریری خلاصے (موجودہ کتاب سے ماخوذ)
Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !