مادری زبان اور نظامِ تعلیم
قومی زبان کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسان کی پہلی پہچان اور ابتدائی تربیت اس کی مادری زبان کے ذریعے ہی پروان چڑھتی ہے۔ بچہ زندگی کا پہلا لفظ اپنی ماں کی بولی سے ادا کرتا ہے اور یہی زبان اس کی فطری سوچ و احساسات کو جِلا بخشتی ہے۔ مادری زبان محض ابلاغ کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک فرد کی تہذیبی جڑوں اور فکری بنیادوں کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
محققین اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے زیادہ بہتر انداز میں نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ دیرپا یادداشت بھی قائم رکھتے ہیں۔ سائنسی مضامین سے لے کر ادبی و سماجی علوم تک، ہر شعبے میں مادری زبان بچے کی ذہنی استعداد کو جِلا بخشتی ہے۔ اس کے برعکس جب بچہ ایک ایسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہو جسے وہ اپنی گھریلو اور فطری زبان نہیں سمجھتا، تو اس کے اندر الجھن، ذہنی دباؤ اور احساسِ کمتری جنم لیتے ہیں۔
یہ فطرت کا اصول ہے کہ تعلیم اسی زبان میں زیادہ مؤثر ہوتی ہے جس میں سوچ اور فہم کے دروازے خود بخود کھلتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے کہ: “ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں اتارا تاکہ تم آسانی سے لوگوں کو سمجھا سکو”۔ یہ واضح دلیل ہے کہ علم کی ترسیل اور فہم کے لیے مادری زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانا نہ صرف ضروری بلکہ الٰہی اصول بھی ہے۔
مادری زبان کے ذریعے نہ صرف علم و دانش منتقل ہوتا ہے بلکہ نسل در نسل تہذیب، ثقافت اور روایات کا تسلسل بھی برقرار رہتا ہے۔ بچہ جب اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے خاندان اور معاشرے سے گہری وابستگی محسوس کرتا ہے اور اپنی تہذیبی اقدار کو بہتر انداز میں سمجھنے لگتا ہے۔
لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے مادری زبان کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر رائج کریں۔ اس سے نہ صرف طلبہ کی تعلیمی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ وہ ایک باشعور، پراعتماد اور مثبت معاشرتی فرد بن کر معاشرے کی خدمت کر سکیں گے۔
.jpg)