پاکستان اور ماحولیاتی بحران: اک عالمی ناانصافی

پاکستان اور ماحولیاتی بحران: اک عالمی ناانصافی 


تحریر: محمد انوار الحق

پاکستان اس وقت "نازک موڑ" سے گزر رہا ہے؛ وہ موڑ جو کبھی سیدھا رستہ لینے کا نام نہیں لے رہا. اس سال یعنی 2025 میں پاکستان کے بیشتر علاقے ایک بار پھر ماحولیاتی بحران یعنی  موسمیاتی بحران کی وجہ سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں. لیکن یہ ایک ایسا بحران ہے جو صرف پاکستان نے پیدا نہیں کیا بلکہ واقعی اس میں" بیرونی ہاتھ" ملوث ہیں. اب آپ اس کو "عالمی سازش" کہیں یا ہماری "جغرافیائی قسمت"،  یہ سب آپ پر منحصر ہے. 



تباہ کن مون سون بارشوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، زرعی زمینوں کے وسیع رقبے تباہ کر دیے اور ایک "قومی ایمرجنسی" کو جنم دیا. حکومت نے اس تباہی کے بعد یعنی 11 ستمبر 2025 سے "ماحولیاتی ایمرجنسی" اور "زرعی ایمرجنسی" دونوں نافذ کیں تاکہ اس بڑے پیمانے کی تباہی کو تسلیم کیا جا سکے اور اسکا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے. یہ صرف ایک قومی بحران نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی ناانصافی ہے کا منہ بولتا ثبوت ہے. یہ بحران ایک ایسے نظام کی پیداوار جس میں وہ ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی یعنی موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار سب سے کم ہیں. دنیا کے سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کرنے والے ممالک میں چین سب سے آگے ہے جو کل اخراج کا تقریباً 30 فیصد پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد امریکہ 11 فیصد، بھارت 8 فیصد اور یورپی یونین 6 فیصد کے ساتھ نمایاں ہیں۔ روس 5 فیصد، برازیل 2.5 فیصد، انڈونیشیا 2.3 فیصد، جاپان 2.2 فیصد، کینیڈا 1.5 فیصد اور میکسیکو 1.3 فیصد کے ساتھ اس فہرست میں شامل ہیں۔ یہ دس ممالک دنیا کے کاربن اخراج کا سب سے بڑا حصہ رکھتے ہیں اور عالمی ماحولیاتی بحران کے بنیادی ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں


پاکستان دنیا کی کل گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، اس کے باوجود یہ دنیا کے دس سب سے زیادہ ماحولیاتی طور پر کمزور ممالک میں شامل ہے. یہ فرق ایک بڑی ناانصافی کو ظاہر کرتا ہے. جو اس بحران کے سب سے کم ذمہ دار ہیں وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں: سیلاب، خشک سالی، شدید گرمی کی لہر کی وجہ سے. یہ صرف سائنسی مسئلہ نہیں ہے، یہ موسمیاتی مساوات اور عالمی ذمہ داری کا سوال ہے۔ جو ممالک تاریخی طور پر سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ہیں، ان پر اخلاقی فرض ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے زریعے پاکستان جیسے ماحولیاتی تبدیلی کے شکار ممالک کی مدد کریں. 


2025 کے سیلاب نے 21 لاکھ ایکڑ سے زیادہ زرعی زمین ڈبو دی، لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا اور چاول، کپاس، مکئی اور گنے جیسی اہم فصلوں کو تباہ کر دیا. یہ نقصان پاکستان کی زرعی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ گیا ہے جو ملک کی 36.1 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتی ہے. اس بحران نے غذائی تحفظ، دیہی روزگار اور معاشی استحکام کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے. ماحولیاتی بحران صرف ماحول کا نہیں بلکہ معیشت اور سماج کا بھی بحران ہے. 


معاشی تباہی: ایک بحران پر بحران


سیلاب کے معاشی اثرات نے پہلے سے ہی نازک معیشت کو مزید بوجھ تلے دبا دیا ہے. صرف زرعی نقصان کا تخمینہ 302 ارب پاکستانی روپے (1 ارب ڈالر) لگایا گیا ہے جو کل نقصان کا تقریباً تین چوتھائی بنتا ہے۔ مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے، خوراک کی قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں. پاکستان کو لاکھوں ٹن گندم اور کپاس درآمد کرنی پڑ سکتی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر مزید دباؤ میں آئیں گے. یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ ایسے ماحولیاتی تبدیلی کس طرح پوری معیشت کو عدم استحکام کا شکار بنا سکتے ہیں. اس سب کے باوجود عالمی برادری کا ردعمل ناکافی ہے. پاکستان کی ماحولیاتی ایمرجنسی خیرات کی اپیل نہیں ہے. یہ موسمیاتی انصاف کا مطالبہ ہے۔ عالمی برادری کو لازمی طور پرعملی جامہ پہنانا ہوگا اور بلا قرض ماحولیاتی فنڈنگ فراہم کرنی ہوگی. 


غربت اور ماحولیاتی بحران: ایک دوہرا بوجھ


ماحولیاتی تبدیلی ایسے وقت پر پاکستان کو نشانہ بنا رہی ہیں جب ملک میں غربت پہلے ہی بڑھ رہی ہے۔ مالی سال 2025 میں غربت کی شرح 42.4 فیصد تک پہنچنے کا اندازہ ہے، اور صرف اسی سال مزید 19 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے. ورلڈ بینک کے مطابق 44.7 فیصد پاکستانی اب غریب ہیں اور 16.5 فیصد شدید غربت میں زندگی گزار رہے ہیں. سیلاب نے دیہی غربت کو مزید بڑھایا ہے، فصلوں کی پیداوار کم کر دی ہے اور ایک کروڑ افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار بنا دیا ہے. زرعی مزدوروں کی حقیقی آمدن میں کمی متوقع ہے، جس سے بحران مزید گہرا ہو جائے گا. یہ حقیقت کہ پاکستان ماحولیاتی طور پر کمزور بھی ہے اور معاشی طور پر بھی دباؤ میں ہے، عالمی مدد کے لیے اس کا کیس اور زیادہ مضبوط بناتی ہے. 


ماحولیاتی انصاف: پاکستان کا جائز مطالبہ

پاکستان خیرات نہیں مانگ رہا بلکہ ان نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کر رہا ہے جو ان گیسوں کے اخراج سے ہوئے ہیں جن کا ذمہ دار وہ ہے ہی نہیں۔ آذربائیجان میں ہونے والے عالمی ماحولیاتی اجلاس میں وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی سالانہ سو ارب ڈالر ماحولیاتی امداد کے وعدے کو پورا کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ماحولیاتی عالمی معاہدے پر عمل ہونا چاہیے اور پاکستان کو شفاف رسائی ملنی چاہیے تاکہ وہ ماحولیاتی فنڈز، ٹیکنالوجی اور موافقتی مدد حاصل کر سکے۔ اگرچہ نقصانات اور تلافی کے فنڈ کے لیے سات سو تیس ملین ڈالر کے وعدے کیے گئے ہیں، لیکن ماہرین کے مطابق حقیقی ماحولیاتی نقصانات سے نمٹنے کے لیے ہر سال پانچ سو اسی ارب ڈالر درکار ہیں۔ پاکستان کا یہ مطالبہ صرف اخلاقی بنیادوں پر نہیں بلکہ حقائق، انصاف اور عالمی وعدوں پر مبنی ہے۔

پاکستان کو اب کیا کرنا چاہیے؟


پاکستان کو عالمی سطح پر مضبوط اور حکمتِ عملی پر مبنی کردار ادا کرنا ہوگا. اسے بڑے اخراج کرنے والے ممالک سے لازمی معاوضہ مانگنا چاہیے اور اس بات پر اصرار کرنا چاہیے کہ مدد قرضوں کی بجائے ماحولیاتی گرانٹس کی شکل میں ہو. حکومت، خاص طور پر وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کو ایسے انتظامات کرنے اور طریقہ کار بنانے ہوں گے جن سے ماحولیاتی فنڈز تک رسائی اور ان کا شفاف استعمال ممکن ہو، جن میں تکنیکی مہارت، ڈیٹا سسٹمز اور شفافیت شامل ہو. 


اسی کے ساتھ پاکستان کو ماحولیاتی طور پر پائیدار انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، جیسے سیلاب سے محفوظ مکانات، اونچی سڑکیں، اورعوام کو محفوظ بنایا جا سکے اور معیشت کو بحال کیا جا سکے. سول سوسائٹی اور میڈیا کو پاکستان کی آواز عالمی سطح پر بلند کرنی چاہیے تاکہ یہ بیانیہ بنے کہ پاکستان محتاج نہیں بلکہ اپنا جائز حق مانگ رہا ہے. ملک کو قرض پر مبنی حل مسترد کر کے منصفانہ اور قابلِ برداشت ماحولیاتی فنڈنگ کی وکالت کرنی چاہیے. خطے میں تعاون (خاص طور پر آذربائیجان جیسے ممالک کے ساتھ جو رنیوبل انرجی اور آفات سے نمٹنے میں کافی بہتر ہے) پاکستان کے لیے قیمتی ثابت ہو سکتا. 


فیصلہ کن لمحہ


پاکستان صرف پانی میں نہیں ڈوبا ہوا، یہ عالمی بے حسی میں بھی ڈوبا ہوا ہے. ماحولیاتی بحران عالمی ہے، مگر اس کے اثرات سب پر یکساں نہیں ہیں۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان اٹھ کھڑا ہو، بطور ایک ایسا ملک جو خیرات نہیں بلکہ ماحولیاتی انصاف کا حق دار ہے. ماحولیاتی انصاف اب صرف اک آپشن نہیں ہونا چاہیے بلکہ اب ایک طویل عرصے سے ہونی والی زیادتی کا ازالہ ہونا چاہیے. ورنہ ہم تو صرف یہی کہیں گے کہ "سازش میں شامل، سارا جہاں ہے." 


Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !