ترک صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ ترکیہ کبھی بھی ’’سلوان کتبہ‘‘ اسرائیل کے حوالے نہیں کرے گا، جو یروشلم کے نیچے ایک سرنگ سے انیسویں صدی کے آخر میں دریافت ہوا تھا اور اس وقت استنبول کے آثارِ قدیمہ کے عجائب گھر میں موجود ہے۔
ترکی کے صدر نے کہا کہ یہ کتبہ عثمانی دور میں دریافت ہوا تھا اور یہ ہمارے آباؤ اجداد کی میراث ہے، اسرائیل کو اس پر کوئی حق نہیں۔ اردوان نے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ ترکی کے خلاف نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں کیونکہ ان کی بارہا کوششوں کے باوجود یہ قیمتی نوادر انہیں واپس نہیں دیے گئے۔
یہ معاملہ اُس وقت دوبارہ توجہ کا مرکز بنا جب نیتن یاہو نے حال ہی میں کہا کہ 1998 میں اس کتبے کی واپسی کی ان کی کوشش اس بنیاد پر مسترد کر دی گئی تھی کہ ایسا کرنے سے اس وقت استنبول کے میئر اردوان کی قیادت میں اسلام پسند حلقے مشتعل ہو سکتے تھے۔
اردوان نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ:
’’یروشلم تمام مسلمانوں اور پوری انسانیت کی عزت و وقار کا مرکز ہے۔ ہم نہ سلوان کتبہ دیں گے اور نہ ہی یروشلم کی ایک کنکری کسی کو دینے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
یہ کتبہ تقریباً 2700 سال پرانا ہے اور عبرانی زبان میں کندہ ہے۔ یہ یروشلم کی ایک قدیم آبی سرنگ میں 1880 میں دریافت ہوا تھا، جب شہر عثمانی سلطنت کا حصہ تھا، اور بعدازاں قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) منتقل کر دیا گیا، جہاں یہ آج بھی محفوظ ہے۔
اسرائیل اس کتبے کو اپنی تاریخی موجودگی کا اہم ثبوت قرار دیتا ہے اور برسوں سے اسے واپس لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ نیتن یاہو نے حال ہی میں مقبوضہ مشرقی یروشلم کے فلسطینی علاقے سلوان میں قدیم سڑک کی افتتاحی تقریب میں کہا تھا کہ ’’سلوان کتبہ مردہ سمندر کے صحیفوں کے بعد سب سے اہم آثارِ قدیمہ کی دریافت ہے‘‘۔
تاہم ترکی کا مؤقف واضح ہے کہ یہ نوادرات عثمانی دور میں دریافت ہوئے اور ترکیہ کی ملکیت ہیں۔ صدر اردوان کا کہنا ہے کہ یہ کتبہ نہ صرف ترکی کی تاریخی وراثت ہے بلکہ یروشلم کے تحفظ کی علامت بھی ہے۔
.jpg)
