چاندنی رات کا نوحہ

 



تحریر:عاقب جتوئی

1947 کا سال… برصغیر کی فضاؤں میں نفرت اور بداعتمادی کے بادل گہرے ہو چکے تھے۔ ہندو اور مسلمان صدیوں کی ہمسائیگی اور میل جول کے باوجود ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے تھے۔ گاؤں گاؤں، نگر نگر، فسادات کی آگ پھیل رہی تھی۔ انسانی لاشیں گلی کوچوں میں بکھری تھیں، اور معصومیت کی چیخیں اندھیرے کو مزید گھمبیر کر رہی تھیں۔

انہی ہنگامہ خیز دنوں میں ایک ننھی ہندو لڑکی، جس کی عمر بمشکل سات برس تھی، اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ قافلے میں شامل تھی۔ گاؤں کے مرد اور عورتیں گھبراہٹ کے عالم میں اپنے گھروں کے دروازوں پر تالے لگا کر، روتے بچوں کو گود میں سنبھالتے ہوئے سرحد کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ واپسی کا دن کبھی نصیب ہوگا یا نہیں۔

وہ ننھی لڑکی—نام سُرجی تھا—اپنی ماں کا پلو تھامے بھاگتی جا رہی تھی۔ لیکن اچانک دھکم پیل میں وہ بھیڑ سے الگ ہو گئی۔ ایک لمحے کو اس نے چیخ کر اپنی ماں کو پکارا، لیکن شور اتنا تھا کہ اس کی آواز ہوا میں دب کر رہ گئی۔ آنکھوں کے سامنے صرف اجنبی چہرے، روتے بچے اور دھواں اڑاتے مکان تھے۔

کچھ دیر تک وہ قافلے کے پیچھے دوڑتی رہی، مگر جلد ہی قدم لڑکھڑا گئے۔ گرتی پڑتی وہ گاؤں کے قریب ایک پیڑ کے سائے تلے بیٹھ گئی۔ آنسو بہہ رہے تھے، لیکن ذہن خالی تھا۔ اسے نہ معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے، نہ یہ کہ جانا کہاں ہے۔

گھنٹوں کے بعد جب ہوش سنبھلا تو اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ خوف نے اسے گھیر لیا۔ وہ روتی روتی واپس اپنے گاؤں کی طرف چل پڑی، لیکن وہاں پہنچ کر منظر اور زیادہ بھیانک تھا۔ پورا گاؤں سنسان، گلیاں ویران، اور مکانوں پر تالے لگے تھے۔ کبھی یہ گاؤں ہندو اور مسلمانوں کا مسکن تھا، مگر اب وہاں صرف مسلمانوں کے چند گھر بچے تھے۔

اسی گاؤں میں ایک مسلمان بیوہ عورت حاجراں بی بی رہتی تھی۔ اس نے جب اس بچی کو دیکھا تو پہچان لیا۔ "یہ تو لالہ رام کی بیٹی ہے، ارے یہ تو سُرجی ہے!" حاجراں بی بی نے اسے اپنے قریب بلایا۔ ننھی بچی نے بھاگ کر اس کے دامن کو تھام لیا اور زاروقطار رونے لگی۔

حاجراں بی بی کے دل میں ممتا کا دریا بہہ نکلا۔ اس نے سُرجی کو گھر لے جا کر کھانا دیا، پانی پلایا اور تسلی دی۔ گاؤں کے دیگر مسلمان بھی جانتے تھے کہ فسادات میں جدا ہونے والے بچوں کا اندراج فوجی کیمپوں میں کروایا جاتا ہے تاکہ انہیں خاندانوں سے ملا دیا جائے۔ چنانچہ حاجراں بی بی نے بھی یہ فریضہ ادا کیا۔ لیکن وقت گزرتا گیا، دن مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدل گئے، مگر سُرجی کے گھر والوں کی کوئی خبر نہ آئی۔

یوں سُرجی مسلمان گھرانے میں پروان چڑھنے لگی۔ حاجراں بی بی کے دو بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا گاؤں کے کاموں میں مشغول رہتا جبکہ چھوٹا بیٹا شاہد خان اسکول میں پڑھتا تھا۔ سُرجی دونوں کے ساتھ کھیلتی، کبھی بہن بن جاتی، کبھی بیٹی کی طرح۔ حاجراں بی بی کے لیے وہ اب اپنی بیٹی سے بڑھ کر تھی۔

سُرجی کو وقت نے نئی عادات سکھا دیں۔ وہ مسلمان بچوں کے ساتھ کھیلتی، ان کی زبان میں بات کرتی اور انہی کی طرح زندگی جیتی۔ مگر اس کے اندر کہیں نہ کہیں اپنی اصل شناخت کی دھندلی یادیں باقی تھیں۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ کبھی وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی، مگر اب وہ سب خواب لگتے تھے۔

سالوں کے بعد جب وہ جوانی میں قدم رکھنے لگی تو سب حیران رہ گئے۔ وہ لڑکی صرف خوبصورت ہی نہیں، بلکہ نیک سیرت اور بااخلاق بھی تھی۔ گاؤں کی عورتیں اکثر کہا کرتیں:
"اللہ نے حاجراں بی بی کو بیٹی دی ہی نہیں تھی، مگر دیکھیے، کیسی ہیر جیسی بیٹی ملی ہے۔"

مگر جوانی اپنے ساتھ نئے سوال بھی لے کر آتی ہے۔ حاجراں بی بی جانتی تھی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سُرجی کے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے۔ گاؤں میں باتیں ہونے لگیں کہ یہ لڑکی کب تک یوں رہے گی؟ آخر اسے اپنی مرضی کے بغیر یہاں نہیں رکھا جا سکتا۔

ایک شام حاجراں بی بی نے اسے پیار سے اپنے قریب بلایا۔ سُرجی ہمیشہ کی طرح انہیں "ماں جی" کہہ کر مخاطب کرتی تھی۔ حاجراں بی بی نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنی بات کہی:
"بیٹی! تو نے بچپن سے لے کر آج تک ہمارے گھر کو روشن رکھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تیرا گھر بھی بسے۔ میں چاہتی ہوں کہ تو میرے بیٹے شاہد کے ساتھ زندگی گزارے۔ مگر اس کے لیے ایک شرط ہے…"

سُرجی نے حیرانی سے ماں جی کی طرف دیکھا۔
"شرط؟"

"ہاں بیٹی… مذہب کی شرط۔ ہم نے تجھ پر کبھی زور نہیں ڈالا، نہ تجھے اپنا مذہب چھوڑنے کو کہا۔ مگر شادی کے لیے لازم ہے کہ تو اسلام قبول کرے۔ یہ فیصلہ تجھ پر ہے۔"

سُرجی خاموش رہی۔ اس کی آنکھوں میں بچپن سے لے کر آج تک کے سارے مناظر تیرنے لگے: ماں باپ کا بچھڑ جانا، ویران گاؤں، حاجراں بی بی کا پیار، شاہد کی معصوم دوستی… اور اب یہ نیا موڑ۔

کمرے میں سکوت طاری ہو گیا۔ باہر شام ڈھل رہی تھی۔ چراغوں کی لو جیسے سوال پوچھ رہی تھی کہ سُرجی کا مستقبل کس طرف جائے گا۔

عنوان: "چھنی ہوئی روشنی"

گاؤں کی فضا میں اب سکون کا گہرا رنگ اتر آیا تھا۔ وہ دن گزر چکے تھے جب فسادات کی آگ نے ہر آنگن کو جلایا تھا۔ اب اس گاؤں میں لوگ دوبارہ اپنی زندگیوں کی گاڑی کھینچنے لگے تھے۔ مگر اس خاموش فضا کے بیچ مریم (جسے کبھی سُرجی کہا جاتا تھا) کی زندگی نئی کروٹ لے چکی تھی۔

اسلام قبول کرنے کے بعد اس کی شادی شاہد خان سے ہوئی۔ نکاح کے روز حاجراں بی بی کی آنکھوں میں وہی خوشی جھلک رہی تھی جو برسوں سے ان کے دل میں دب کر رہ گئی تھی۔ گاؤں کے لوگ حیران بھی تھے اور شاد بھی کہ ایک اجنبی بچی اب ہمیشہ کے لیے اس گاؤں کی بیٹی بن گئی تھی۔

وقت گزرتا گیا۔ شادی کے ایک برس بعد اللہ نے انہیں ایک بیٹے کی نعمت عطا کی۔ بچے کا نام دلاور خان رکھا گیا۔ اس کا چہرہ معصومیت سے چمکتا اور آنکھوں میں چاندنی جھلکتی تھی۔ پورے گھر کی رونق وہی تھا۔ حاجراں بی بی دن رات دعا کرتی رہتیں اور مریم تو یوں لگتی جیسے اس کی زندگی کا سب سے بڑا انعام اسے مل گیا ہو۔

گھر میں خوشیوں کا میلہ سا لگا رہتا۔ جب بچہ روتا تو سب کے کان متوجہ ہو جاتے۔ جب ہنستا تو جیسے کائنات کے سارے رنگ آنگن میں اتر آتے۔ مریم اور شاہد دونوں اپنے ننھے دلاور کے گرد محبت کا حصار بُن لیتے۔ وہ بچہ ابھی چلنا بھی نہیں سیکھا تھا کہ اچانک ایک دن زندگی نے ایک ایسا موڑ لیا جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔

ایک سہ پہر دروازے پر زور کی دستک ہوئی۔ حاجراں بی بی نے چونک کر دروازہ کھولا۔ سامنے فوجیوں کی ایک ٹولی کھڑی تھی۔ ان کے چہروں پر سختی نہیں تھی بلکہ رسمی سی سنجیدگی تھی۔ حاجراں بی بی کے دل میں گھبراہٹ اتر آئی۔

"جی بیٹا، سب خیریت تو ہے؟ کیا میرے بچوں نے کوئی جرم کر دیا ہے؟"
انہوں نے کپکپاتی آواز میں پوچھا۔

ٹولی کا سربراہ ایک قدم آگے بڑھا اور نرم لہجے میں بولا:
"نہیں ماں جی، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مگر ہمیں ایک پرانا معاملہ پورا کرنا ہے۔ آج سے تقریباً بارہ برس پہلے آپ نے ایک ہندو بچی کے گمشدہ ہونے کی اطلاع درج کرائی تھی۔ اس کے ورثا ہندوستان میں مل گئے ہیں۔ حکومتِ وقت کا معاہدہ ہے کہ ایسے بچوں کو ان کے خاندانوں کے حوالے کیا جائے۔ لہٰذا ہمیں وہ بچی، یعنی مریم، کو واپس ہندوستان بھیجنا ہے۔"

یہ سن کر حاجراں بی بی کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
دروازے پر شور سن کر مریم بھی وہاں آ گئی۔ سفید دوپٹے میں لپٹی، گود میں اپنا ننھا دلاور اٹھائے وہ حیرانی سے فوجیوں کو دیکھنے لگی۔

"ماں جی، یہ کیا کہہ رہے ہیں؟" اس نے دھیرے سے پوچھا۔

حاجراں بی بی کی زبان بند ہو گئی۔ آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ فوجی سربراہ نے آگے بڑھ کر مریم کو سارا معاملہ سمجھایا۔ لیکن جیسے ہی مریم نے حقیقت جانی، اس کا رنگ زرد ہو گیا۔

"یہ… یہ میرا گھر ہے۔ میں کہاں جاؤں گی؟" اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
"یہی میری ماں ہے، یہی میرا شوہر ہے، یہی میرا بچہ ہے۔ آپ لوگ مجھے کیسے جدا کر سکتے ہیں؟"

مریم کے لہجے میں وہ درد تھا جو برسوں کی محرومی اور نئے بنے رشتوں کے درمیان پل رہا تھا۔

مریم کے انکار پر فوجی خاموش رہے۔ ان کا لہجہ سخت نہ تھا مگر فیصلہ پتھر کی لکیر کی طرح واضح تھا۔
"بی بی، ہمیں آپ کی تکلیف کا احساس ہے، مگر یہ حکومتی حکم ہے۔ ہمیں آپ کو ہندوستان کے سپرد کرنا ہے۔"

مریم کے ہاتھ سے دلاور کی انگلیاں چھوٹنے لگیں۔ اس نے بچے کو اور مضبوطی سے اپنے سینے سے لگا لیا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

"آپ نہیں جانتے… میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ میرے پرانے خاندان والے مجھے کبھی نہیں اپنائیں گے۔ اور پھر… میں اب ماں ہوں۔ آپ میرا بچہ مجھ سے کیسے چھین سکتے ہیں؟"

شاہد خان آگے بڑھا، اس کی آنکھوں میں بھی نمی تھی۔
"صاحب، ہم سب کے سامنے نکاح ہوا تھا۔ یہ میری بیوی ہے۔ آپ لوگ اسے کیسے زبردستی لے جا سکتے ہیں؟"

لیکن جواب وہی تھا:
"حکمِ بالا ہے۔ ہمیں صرف اپنا فرض ادا کرنا ہے۔"

گھر کے صحن میں کہرام مچ گیا۔ حاجراں بی بی فوجیوں کے قدموں میں گر پڑیں۔
"بیٹوں کی قسم ہے تمہیں، اسے مت لے جاؤ۔ یہ میرے خون سے بڑھ کر ہے، میری عزت ہے، میری بیٹی ہے۔"

مگر فوجی اپنے موقف پر قائم رہے۔ وہ بار بار یہی دہراتے رہے:
"ماں جی، ہمیں افسوس ہے، مگر سرکاری حکم کے آگے ہم مجبور ہیں۔"

مریم کبھی اپنے بیٹے کو دیکھتی، کبھی شاہد کو، کبھی حاجراں بی بی کو۔ اس کی چیخیں دل چیرنے والی تھیں۔
"نہیں… میں نہیں جاؤں گی! یہی میرا گھر ہے۔ یہ بچہ میرا سب کچھ ہے۔ مجھے مت چھینو۔"

لیکن اس کی پکار کو کسی نے نہ سنا۔

شام کا وقت تھا جب فوجیوں نے بالآخر اسے زبردستی ساتھ لے جانا شروع کیا۔ شاہد خان اور حاجراں بی بی دیوانہ وار چیختے، روتے پیچھے بھاگے۔ مریم نے آخری بار دلاور کو سینے سے لگایا اور بے اختیار کہا:
"میرے بچے… میری جان… یاد رکھنا، تیری ماں نے تجھے کبھی چھوڑنا نہیں چاہا!"

یہ الفاظ پورے گاؤں کی فضا میں چیخ کی طرح گونجے۔

فوجی اسے گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔ گاؤں کی گلیوں میں گرد اڑتی رہی، اور پیچھے رہ جانے والوں کی سسکیاں مٹی میں جذب ہوتی گئیں۔

شاہد خان دروازے پر گرتا پڑتا کھڑا تھا۔ حاجراں بی بی نیم بے ہوش تھیں۔ اور ننھا دلاور اپنی ماں کے بغیر بلک رہا تھا۔

یوں مریم کو اس کے اپنے ہی گھر سے جدا کر کے ہندوستانی حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔ گاؤں کی فضا پھر خاموش ہو گئی، مگر اس خاموشی میں صدیوں کی چیخیں دفن تھیں۔

اب سوال یہ تھا:
کیا مریم کبھی واپس آئے گی؟
کیا اس کا خاندان اسے قبول کرے گا؟
یا وہ ہمیشہ کے لیے دو دنیاؤں کے بیچ ایک اجنبی بن کر رہ جائے گی؟

وقت، جو کسی کے لیے نہیں رکتا، مریم کے ننھے دلاور کو جوانی کی سیڑھیوں پر چڑھاتا رہا۔ وہ بچہ، جو کبھی ماں کی گود سے لپٹ لپٹ کر سوتا تھا، اب پڑھ لکھ کر دیس دیس کی راہوں کا مسافر بن گیا۔ قسمت نے اسے پردیس پہنچا دیا۔ بیرون ملک کی روشنیاں، بلند و بالا عمارتیں اور ترقی کے ساز و سامان اس کے گرد حصار تو کھینچتے رہے، مگر اس کے دل کے ایک کونے میں ایسی آگ سلگتی رہی جو کبھی نہ بجھی—ماں کی جدائی کی آگ۔

یہ آگ، جو بظاہر راکھ میں دب چکی تھی، ہر رات خوابوں میں بھڑک اٹھتی۔ جب کبھی وہ کسی بچے کو اپنی ماں کے گلے لگتے دیکھتا تو اس کے دل کا زخم تازہ ہو جاتا۔ تیس برس کا عرصہ گزر گیا، مگر مریم کی کوئی خبر نہ ملی۔ وہ لمحے دلاور کے دل میں سوال بن کر دھڑکتے رہے:
"کیا میری ماں زندہ ہوگی؟ اگر زندہ ہے تو کس حال میں؟ اور اگر نہیں… تو کیا اس کی قبر تک میرا راستہ کبھی بنے گا؟"

وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ دلاور نے بہت جتن کیے۔ سرکاری ریکارڈ کھنگالے، پرانی دستاویزات کا سراغ لگایا، حتیٰ کہ کئی سفارت خانوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ مگر جواب ہمیشہ ایک سا آتا: "کوئی معلومات دستیاب نہیں۔"

آخر ایک دن قسمت نے نئی کروٹ لی۔ دلاور کی ملاقات ہندوستانی نژاد ایک پرانے دوست سے ہوئی، جو اپنے گاؤں کے معتبر خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے جب دلاور کی کہانی سنی تو چونک گیا اور بولا:
"میرے گاؤں میں کچھ عورتیں ہیں جو تقسیم کے بعد پاکستان سے آئی تھیں۔ وہ اپنے ماضی کے بارے بات نہیں کرتیں، لیکن… ممکن ہے ان میں سے کوئی تیری ماں ہو۔"

یہ جملہ سن کر دلاور کے دل میں امید کا چراغ جل اٹھا۔ اس نے رابطوں کے جال پھیلائے اور آہستہ آہستہ اس گاؤں کے معتبر لوگوں سے بات چیت شروع کر دی۔ وہ گاؤں مکمل طور پر ہندو گھرانوں پر مشتمل تھا، مگر اس کے دل میں یہ سوال سلگتا رہا کہ اگر اس کی ماں مسلمان تھی تو کیا ان لوگوں نے اسے دوبارہ مذہب بدلنے پر مجبور کر دیا ہوگا؟

مہینوں کی کوشش کے بعد دلاور کو خبر ملی کہ ایک بوڑھی عورت، جو کئی برس پہلے پاکستان سے آئی تھی، اپنے ماضی کے بارے بات نہیں کرتی۔ اس کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، مگر گھر غربت کی چکی میں پس رہا تھا۔

دلاور نے دل میں فیصلہ کیا: یہی میری ماں ہو سکتی ہے۔

گاؤں کے نمبردار کے زیرِ سایہ ایک پنچایت بلائی گئی۔ گاؤں کے مرد و زن جمع ہوئے۔ عورت کو خبر بھی نہ تھی کہ اس کی زندگی کے اوراق کو آج پلٹا جائے گا۔

نمبردار نے باری باری حالات بیان کیے اور پھر پوچھا:
"ماں جی! ہم سب کے سامنے ایک سوال ہے۔ کیا آپ کسی دلاور کو جانتی ہیں؟"

یہ جملہ سنتے ہی بوڑھی عورت کے وجود میں زلزلہ سا برپا ہو گیا۔ وہ جیسے کسی گہری نیند سے چونک اٹھی۔ آنکھوں کے اندر دھنسے ہوئے گڑھے اچانک نمی سے بھر گئے۔ جھریوں سے اٹی صورت پر ممتا کی کرنیں لرزنے لگیں۔ ہاتھ کانپنے لگے۔ ہونٹ تھرتھرائے اور آنکھوں سے موتیوں کی طرح آنسو ٹپکنے لگے۔

"ک…کون دلاور؟ میں نہیں جانتی کسی دلاور کو…"
اس نے لرزتی آواز میں کہا، مگر اس کے آنسو اس کے لفظوں کی تردید کر رہے تھے۔

نمبردار نے کہا:
"ماں جی، آج کے زمانے میں رابطے آسان ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس دلاور سے آپ کی بات کروا سکتے ہیں۔"

بوڑھی عورت خاموش رہی، مگر اس کی لرزتی پلکوں نے اجازت دے دی۔ انٹرنیٹ کی اسکرین روشن ہوئی۔ دوسری جانب دلاور کی آنکھیں نم تھیں۔ جیسے ہی اس نے "السلام علیکم ماں" کہا، بوڑھی عورت کا وجود تھر تھرا اٹھا۔

وہ زارو قطار رونے لگی۔ چیخ جیسے صدیوں کے بعد لبوں سے آزاد ہوئی ہو۔
"میرا بچہ… میرا دلاور…! تو زندہ ہے؟ اللہ تیرا بھلا کرے، اللہ تیرا سایہ قائم رکھے!"

دلاور ابھی بھی شش و پنج میں تھا۔ آنسوؤں کے درمیان سوال کر بیٹھا:
"ماں، مجھے یقین دلا دیجیے کہ آپ ہی میری ماں ہیں۔ مجھے اپنے ماضی سے کچھ بتائیے۔"

بوڑھی عورت نے روتے روتے کہا:
"بیٹے، مجھے سب یاد نہیں… لیکن اتنا جانتی ہوں کہ تیری دادی کا نام حاجراں تھا۔ وہ بہت رحمدل عورت تھی، میرے دکھوں کا سہارا تھی۔"

یہ نام سنتے ہی دلاور کی روح لرز گئی۔ یہ وہی نام تھا جو اس کے بچپن کی یادوں میں سنہری حروف کی طرح ثبت تھا۔ اسے یقین ہو گیا—یہی اس کی ماں ہے۔

اب مسئلہ مذہب کا تھا۔ دلاور مسلمان تھا، ماں ہندو۔ مگر اس لمحے دل نے کہا: ماں تو ماں ہوتی ہے، مذہب اور سرحدیں اس رشتے کو نہیں کاٹ سکتیں۔

چند ہی دنوں میں دلاور نے ویزہ لیا اور ہندوستان پہنچ گیا۔ جب وہ گاؤں میں داخل ہوا تو ہر آنکھ اس اجنبی کو دیکھ رہی تھی۔ اور جب اس نے اپنی ماں کو دیکھا تو قدم زمین پر ٹک نہ سکے۔

ماں اور بیٹے کی گلے ملتے ہی فضا میں ایسا منظر بنا جیسے برسوں کی برسات ایک لمحے میں برس گئی ہو۔ ممتا کے خشک ہونٹوں پر دعائیں تھیں اور بیٹے کی آنکھوں میں سکون کا سمندر۔

دلاور خوشحال تھا۔ اس نے اپنے سوتیلے بھائیوں کو غربت سے نکال کر کاروبار شروع کروائے۔ ماں کو بھائیوں کی اجازت سے کچھ عرصہ اپنے ساتھ رکھا۔ برسوں بعد اس نے ماں کی ممتا کا لمس محسوس کیا۔

یہ لمس اس کے لیے کائنات کا سب سے قیمتی سرمایہ تھا۔

یوں نصف صدی کے بعد ماں اور بیٹے کے درمیان فاصلوں کی دیوار گر گئی۔ تاریخ کے زخم ابھی بھی باقی تھے، مگر ممتا کی روشنی نے دکھ کے اندھیروں کو مات دے دی۔

انسان نے مذہب اور سرحدوں کے نام پر لاکھوں قربانیاں دیں، مگر ایک رشتہ ایسا ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا—ممتا کا رشتہ۔
اور دلاور کی کہانی اسی سچائی کی گواہی ہے کہ:

"ماں کی دعا اور ممتا کی خوشبو، زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔


Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !