بلوچستان: سونے کی چڑیا کا المیہ

تحریر:عاقب جتوئی 

بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جس کا رقبہ پورے ملک کا قریباً نصف ہے مگر آبادی کے اعتبار سے یہ سب سے کم گنجان خطہ مانا جاتا ہے۔ قدرت نے اس دھرتی کو خزانے اور دولت سے نوازا ہے، یہاں کی پہاڑیاں، وادیاں، ریگزار اور پتھریلی زمین اپنے اندر وہ ذخائر چھپائے بیٹھی ہیں جو کسی بھی ملک کی معیشت کو سنوار سکتے ہیں۔ اگر بلوچستان کو علامت کے پردے میں دیکھا جائے تو یہ خطہ سونے کی اُس چڑیا سے مشابہت رکھتا ہے جو اپنے پر سونے کی دھوپ میں ڈبونے کے باوجود قفس میں قید ہے، جس کی خوشبو اور نغمے قید خانے کے باہر والوں کو ملتے ہیں، مگر جس کے اپنے وارث صرف قفس کی کھڑکھڑاہٹ سنتے رہتے ہیں۔


بلوچستان کے قدرتی وسائل کی کہانی کئی عشروں پر محیط ہے۔ 1952ء میں جب ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے قدرتی گیس دریافت ہوئی تو یہ پورے ملک کے لیے توانائی کا ایک نیا باب تھا۔ اس گیس سے لاہور، کراچی، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہر چمک اٹھے، صنعتوں کے پہیے چلنے لگے، چولہے جلنے لگے، مگر حیرت انگیز اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جس زمین نے یہ خزانہ دیا، وہاں کے باسی آج بھی لکڑیاں جلا کر اپنے گھروں کو روشن کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جو نہ صرف محرومی بلکہ ایک اجتماعی بے انصافی کی علامت بن چکا ہے۔


بلوچستان کی زمین کے نیچے چھپے ہوئے خزانے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ہمیشہ کشش کا باعث رہے ہیں۔ ریکوڈک کی مثال سب سے نمایاں ہے۔ ماہرین کے مطابق ریکوڈک دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر میں سے ایک ہے، جہاں اربوں ٹن معدنیات دفن ہیں۔ اگر یہ وسائل مقامی آبادی کے مفاد میں بروئے کار لائے جاتے تو بلوچستان ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو سکتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ذخائر کو غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدوں کے تحت بانٹ دیا گیا جن میں شفافیت کا فقدان تھا، اور جن کے نتیجے میں مقامی آبادی کو اپنے حصے میں صرف دھول، غربت اور بے روزگاری ملی۔ سیندک کا منصوبہ بھی کچھ مختلف نہیں، جہاں قیمتی سونا، چاندی اور تانبا نکالا جا رہا ہے مگر آمدنی کا بڑا حصہ وفاق اور غیر ملکی کمپنیوں کے حصے میں جاتا ہے جبکہ مقامی آبادی آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔


یہ صورتحال بلوچ عوام میں یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنی ہی زمین پر اجنبی بنا دیے گئے ہیں۔ ان کے حصے میں وسائل کی خوشبو نہیں بلکہ دھوکا اور محرومی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی دھرتی کا خزانہ دوسروں کے کام آ رہا ہے، مگر ان کے بچوں کے اسکول کھنڈر ہیں، ان کے اسپتال خالی ہیں، ان کے روزگار کے در بند ہیں۔ یہی وہ محرومی ہے جس نے بلوچستان کے اندر ایک طویل المیے کو جنم دیا ہے۔


بلوچستان کی یہ داستان صرف وسائل کی لوٹ مار تک محدود نہیں بلکہ وفاقی رویوں کی تاریخ بھی اس المیے کو مزید گہرا کرتی ہے۔ بلوچستان ہمیشہ سے وسائل کی تقسیم میں نظرانداز ہوا۔ جب گیس نکلی تو پنجاب اور سندھ کے شہروں کو اس سے فیض پہنچا، مگر ڈیرہ بگٹی اور کوہلو اندھیروں میں رہے۔ جب ریکوڈک اور سیندک جیسے منصوبے شروع ہوئے تو ان کی منصوبہ بندی اور معاہدوں میں بلوچ عوام کو شریک نہ کیا گیا۔ اور جب کبھی بلوچستان نے اپنے حق کی آواز بلند کی تو جواب میں محرومی کی زنجیر مزید سخت کر دی گئی۔


یہ سچ ہے کہ بلوچستان ایک ایسی سونے کی چڑیا ہے جو اپنے ہی قفس میں بے بس ہے۔ قفس کے دروازے پر غیر ملکی کمپنیوں کے تالے لگے ہیں اور زنجیروں کو وفاق کی بے حسی نے مزید مضبوط کر دیا ہے۔ بلوچ عوام اس چڑیا کی چیخ سنتے ہیں مگر ان کے ہاتھوں میں اس کے پنجرے کی چابی نہیں۔ یہ صورتحال صرف ایک علامت نہیں بلکہ حقیقت ہے جسے تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے۔


بلوچستان کے وسائل اگر مقامی آبادی کے لیے بروئے کار لائے جاتے تو آج یہ خطہ نہ صرف پاکستان کا بلکہ پورے خطے کا ترقی یافتہ علاقہ ہوتا۔ یہاں کے بچے معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہوتے، یہاں کی عورتیں بہتر طبی سہولتوں سے مستفید ہو رہی ہوتیں، یہاں کے نوجوان اپنی زمین کے وسائل پر فخر کے ساتھ روزگار پاتے۔ مگر اس کے برعکس بلوچستان کے بچے پانی کے گھڑے ڈھوتے ہیں، نوجوان روزگار کی تلاش میں ہجرت پر مجبور ہیں اور عورتیں صحت کی سہولتوں کے بغیر جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔


یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر قابض کمپنیاں اور ادارے صرف معدنیات ہی نہیں نکالتے بلکہ ساتھ ساتھ امیدیں بھی نوچ لیتے ہیں۔ وہ زمین جو خوشحالی کے در وا کر سکتی تھی، وہی زمین محرومی کی علامت بن گئی۔ بلوچ قوم یہ سوال اٹھاتی ہے کہ جب زمین ان کی ہے، خزانہ ان کا ہے، تو فیصلہ کسی اور کے ہاتھ میں کیوں ہے؟ یہ سوال محض جذباتی نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر ہے۔


آج ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کو اس کے حقیقی مقام پر تسلیم کیا جائے۔ وسائل پر پہلا اور بنیادی حق بلوچستان کے عوام کا ہونا چاہیے۔ وفاقی حکومت کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لا کر مقامی شراکت داری کو یقینی بنانا ہوگا۔ غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے شفاف اور عوامی مفاد کے مطابق ہونے چاہئیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بلوچستان کی آمدنی بلوچستان ہی کے انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت پر خرچ کی جائے۔ یہ وہ راستہ ہے جو محرومی کے قفس کو توڑ کر سونے کی چڑیا کو آزاد فضا میں پرواز کا موقع دے سکتا ہے۔


اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو تاریخ یہی لکھے گی کہ ایک خطہ جسے قدرت نے سونے جیسی دولت بخشی تھی، اُس کے وارث غربت، جہالت اور محرومی کے اندھیروں میں تڑپتے رہے۔ بلوچستان کی سونے کی چڑیا کے پروں کی چمک دنیا کو تو روشنی دیتی رہی، مگر اپنے ہی گھونسلے کو اندھیروں سے نہ نکال سکی۔

Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !