غزل
شاعر:شہباز ناصر
کہیں پہ قصے پڑے رہیں گے کہیں کہانی پڑی رہے گی
کہیں پہ مجنوں کو مار دیں گے کہیں پہ رانی پڑی رہے گی
کہیں پہ لاشے بہا کے دریا میں چھوڑ دیں گے جہان والے
کہیں پہ گولی کہیں پہ چھریاں کہیں نشانی پڑی رہے گی
یہ چار دن کی حیات کو تو ہمیشگی کیوں سمجھ رہا ہے
یہیں پہ دولت پڑی رہے گی یہیں جوانی پڑی رہے گی
وہ اپنے ہاتھوں میں پھول گجرے سجا کے دلہن بنے گی پاگل
بطور تحفہ جو تم نے دی ہے گھڑی پرانی پڑی رہے گی
میں چاہتا ہوں کہ جلد تجھ سے نکاح کر لوں بیاہ کر لوں
وگرنہ پیچھے وہ شہرِ چترال کی پٹھانی پڑی رہے گی
.jpg)
