افسانہ: زیرِ سایہ
تحریر:عاقب جتوئی
صبح کے دھندلکے میں فضا ابھی نیند سے بوجھل تھی۔ گلی کے کنارے نیم کے درختوں پر بیٹھی چڑیاں اپنی ننھی چونچوں سے شور مچاتی تھیں، جیسے شہر کے بے حِس شور کو جگانے سے پہلے وہ خود آواز کی مشق کر رہی ہوں۔ اسی گلی میں، ایک جانب شاندار کوٹھی زیرِ تعمیر تھی، جس کے ستون ابھی اپنی قامت پوری کرنے کی جستجو میں تھے۔
محمد حنیف، مزدوروں کی ٹولی کے ساتھ، پسینے اور محنت کی چادر اوڑھے اس کوٹھی کی دوسری منزل پر کام کرتا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں چھالے تھے، لیکن نگاہوں میں رزقِ حلال کا نور۔ اینٹوں کے ڈھیر، ریت کے بوریے، سیمنٹ کی بساند اور لوہے کی سلاخوں کی چھنکار اُس کی روزی کا ساز و سماع تھی۔
اسی کوٹھی کے پہلو میں ایک پرانا سا مکان تھا۔ بوسیدہ دیواریں، کچی اینٹوں پر اُترتی ہوئی چونا گواہی دیتی تھی کہ وقت نے اس گھر کو بےرحمی سے گھِیرا ہے۔ حنیف کی نگاہ اکثر اس مکان کے صحن پر جا ٹکتی۔ صحن کے ایک کونے میں ایک بوسیدہ چارپائی پڑی تھی، جس پر ایک ضعیف بزرگ اپنا دن کاٹتے۔ سفید داڑھی، جھریوں سے بھری پیشانی، کانپتے ہاتھ اور بجھی بجھی آنکھیں۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھے جب انسان ایک ننھے بچے کی طرح سہارا چاہتا ہے۔
ان کے ساتھ اُن کا بیٹا اور بہو رہتے تھے۔ بیٹا روزی کی تلاش میں صبح نکل جاتا اور شام کو لوٹتا۔ لیکن جیسے ہی وہ قدم باہر دھرتا، صحن کی فضا بدل جاتی۔ بہو کی تیز آواز کانوں میں پڑتی، جو کبھی گالی بن کر گرتی، کبھی طنز کی کٹیلی تلوار بن جاتی۔
"بوڑھے! اب پھر کپڑے چاہیئے؟ کیا میں دھوبن ہوں؟"
"کھانے کے وقت کا بھی کوئی حساب نہیں، ہر وقت مانگے جا رہے ہو!"
"تمہارے لیے الگ کھانا پکاؤں؟ جاؤ، خود بندوبست کرو!"
یہ جملے صحن کی دیواروں سے ٹکرا کر کوٹھی کی نیم تیار چھت تک پہنچتے۔ محمد حنیف کی آنکھیں کئی بار اس ظلم کو دیکھتیں اور دل میں عجیب سا درد اترتا۔ وہ سوچتا، "کیا یہ وہی دور ہے جہاں بیٹے اپنے والدین کو عزت کا تاج پہنانے پر فخر کرتے تھے؟"
حنیف کا دل چاہتا کہ بڑھاپے کی اس لاچاری کو سہارا دے، مگر وہ خود مزدور تھا، محتاجِ روزگار۔ اُس کی زبان گونگی ہو جاتی، آنکھیں تر رہ جاتیں۔
مگر ایک دن، دل کی بےچینی نے اسے خاموش نہ رہنے دیا۔ جب بیٹا دفتر کو جانے لگا تو حنیف نے ہمت کر کے اس کا راستہ روکا۔
"بھائی… کچھ کہنا ہے… ناراض نہ ہونا۔"
لڑکا چونکا: "ہاں، بولو، کیا بات ہے؟"
حنیف نے نظریں جھکا لیں: "میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں۔ آپ کے جانے کے بعد… آپ کے والد پر ظلم ہوتا ہے۔ آپ کی بیوی اُن کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہے جسے زبان پر لانا بھی مشکل ہے۔"
بیٹے کی آنکھوں میں حیرت تیر گئی:
"کیا؟ یہ ناممکن ہے! میری بیوی ایسا نہیں کر سکتی۔"
حنیف نے ٹھنڈی سانس لی:
"میری آنکھیں جھوٹ نہیں کہہ رہیں۔ یقین نہ آئے تو کل خود دیکھ لینا۔"
بیٹے کے دل میں وسوسے کی لہر دوڑ گئی۔ وہ خاموشی سے سر ہلا کر آگے بڑھ گیا۔
اگلی صبح صحن میں خاموشی تھی، مگر وہ خاموشی جس کے پیچھے طوفان چھپا ہوتا ہے۔ بزرگ اپنی چارپائی پر نیم دراز تھے، آنکھوں میں انتظار اور ہونٹوں پر نمی کی لکیر۔ بیٹے نے دفتر جانے کے لیے جوتے پہنے تو بہو نے مسکراتے ہوئے پانی کا گلاس آگے بڑھایا۔ اُس مسکراہٹ میں ایسی مصنوعی مٹھاس تھی جیسے زہر کو شکر میں لپیٹ دیا گیا ہو۔
"وقت پر آ جانا،" بیوی نے نرمی سے کہا۔
لڑکے نے اسے سر ہلاتے ہوئے دیکھا اور سوچا: کیا واقعی یہ عورت وہی ہے جس کے بارے میں حنیف نے کہا تھا؟
وہ دروازہ بند کر کے نکلا مگر چند ہی لمحوں بعد دبے پاؤں واپس لوٹ آیا۔ دل دھڑک رہا تھا، جیسے کسی جرم کی تحقیق کے لیے وہ خود ملزم بن گیا ہو۔ دروازے کی اوٹ سے اُس نے صحن میں جھانکا۔
منظر ایسا تھا کہ زمین قدموں تلے سے کھسک گئی۔
بہو کے تیور بدل چکے تھے۔ آواز میں وہی سختی، وہی زہر:
"کتنی بار کہا ہے کہ مجھے بار بار مت بلایا کرو! تمہیں کیا لگتا ہے، میں تمہاری نوکرانی ہوں؟ کھانے کو مانگتے ہو تو گویا تمہارا احسان ہے ہم پر۔"
بزرگ کانپتے ہاتھوں سے پانی کا گلاس تھامنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گلاس اُن کے ہاتھ سے گر پڑا اور پانی صحن کی مٹی میں جذب ہو گیا۔ بہو نے آگ بگولہ ہو کر کہا:
"اب یہ صفائی بھی میں کروں؟ جاؤ اپنی کمزوریوں کے ساتھ بھگتو۔"
یہ سب دیکھ کر بیٹے کے اندر کی دنیا ہل گئی۔ وہ جھپٹ کر صحن میں آیا۔
"بس!" اُس کی آواز کڑک دار بادل کی طرح گونجی۔ "یہ کیا ہے جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں؟"
بہو سہم گئی۔ اُس کے ہونٹ کپکپائے۔
"یہ… یہ تو… آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔"
بیٹے نے آنکھوں میں سرخی بھر کر کہا:
"غلط؟ میں نے اپنی آنکھوں سے تمہارا سلوک دیکھا۔ یہ میرے والد ہیں، میری زندگی کا سرمایہ۔ اور تم نے ان کے ساتھ یہ برتاؤ کیا؟ تمہارے لیے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں!"
وہ دہلیز کی طرف بڑھا اور دروازہ کھول دیا۔
"نکل جاؤ میرے گھر سے، ابھی کے ابھی!"
بہو نے چیخ کر کہا:
"ایسا مت کیجیے، میں کہاں جاؤں گی؟ میرے بچے؟"
محلے کی عورتیں شور سن کر آ گئیں۔ ایک نے بہو کو بازو سے پکڑا اور کہا:
"بیٹی، یہ سب تمہاری اپنی کرتوت کا نتیجہ ہے۔ اگر شوہر ابھی طلاق دے دیتا تو تم بچوں کے ساتھ کہاں جاتیں؟ آج کے زمانے میں ماں باپ بھی سہارا نہیں بنتے۔ تم نے اپنے سسر کے ساتھ ظلم کیا ہے، اب معافی مانگو۔"
بزرگ خاموش بیٹھے تھے، ان کی آنکھوں میں نمی اور لبوں پر لرزتی دعا تھی۔
بہو کے قدم ڈگمگا گئے۔ اُس نے سسکیوں کے درمیان کہا:
"میں نے ظلم کیا ہے۔ میں معافی مانگتی ہوں… اب دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔"
بیٹے نے اپنے والد کی طرف دیکھا۔ بزرگ کی نگاہ میں تھکن کے ساتھ ایک نرمی تھی، جیسے وہ سب کچھ بھلا دینا چاہتے ہوں۔ بیٹے نے لمبی سانس لی اور کہا:
"اگر میرے والد تمہیں معاف کریں تو میں بھی معاف کرتا ہوں۔ لیکن یاد رکھو، اب یہ گھر تمہارے لیے عبادت گاہ ہے، جہاں سب سے پہلی خدمت میرے والد کی ہے۔"
بزرگ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ آنسو گویا ایک دعا تھے، جو بہو کے دل کی سختی کو پگھلا گئے۔
گھر کی فضا جو کل تک کڑوی کسیلی آوازوں سے بھری ہوئی تھی، آج خاموش مگر پُر سکون تھی۔ بہو کی آنکھوں میں ندامت کے سائے اور دل میں خوف کی دھڑکن تھی۔ رات بھر وہ سوچتی رہی کہ اگر شوہر نے واقعی طلاق دے دی ہوتی تو اس کے بچے کس در بدر کی ٹھوکریں کھاتے؟ ماں باپ کے دروازے بھی اس کے لیے بند ہو جاتے۔ محلے کی عورتوں کے جملے گونجتے رہے:
"آج کے زمانے میں کوئی سہارا نہیں بنتا۔"
صبح صحن میں نیا منظر تھا۔ وہی بزرگ، وہی لرزتے ہاتھ، لیکن اب ان کے قریب بہو تھی۔ اس نے بڑے اہتمام سے کھانا پکایا، صاف ستھری پلیٹ میں رکھا اور جھجکتے ہوئے کہا:
"بابا جی… یہ نوالہ میں خود آپ کو کھلاؤں گی۔"
بزرگ کی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں۔ وہ اپنی بہو کو دیکھ رہے تھے جس کے چہرے پر سختی کی بجائے عاجزی جھلک رہی تھی۔
"بیٹی… یہ سب کیوں؟" بزرگ نے لرزتی آواز میں پوچھا۔
بہو نے سر جھکا لیا:
"بابا جی، میں نے آپ کے ساتھ بہت برا کیا۔ مجھے معاف کر دیں۔ یہ میرا فرض ہے کہ اب آپ کی خدمت کروں۔"
بزرگ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ آنسو دعا بن کر بہو کے ہاتھوں پر ٹپک پڑے۔ اس لمحے گویا آسمان سے روشنی اتری، اور صحن کی فضا میں ایک عجیب سکون چھا گیا۔
محمد حنیف اگلی صبح مزدوری کے لیے حسبِ معمول کوٹھی کی دوسری منزل پر چڑھا۔ جب اُس کی نگاہ پرانے مکان کے صحن پر پڑی تو وہ دنگ رہ گیا۔ وہی بزرگ، جن کے کانپتے ہاتھ چمچ تک نہ تھام سکتے تھے، آج اپنی بہو کے ہاتھ سے نوالہ کھا رہے تھے۔ بہو کے چہرے پر خلوص کا رنگ تھا، جیسے گناہ دھل گئے ہوں۔
حنیف نے اپنے دل میں شکر ادا کیا۔ اُس کی آنکھوں میں نمی آگئی، اور اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا:
"یا رب! تو بڑا مہربان ہے۔ تو نے ایک دل کو نرم کر دیا، ایک گھر کو اجڑنے سے بچا لیا۔"
اسی لمحے مزدوری کی آوازیں، ہتھوڑے کی ٹک ٹک اور سیمنٹ کی بساند بھی اُس کے لیے خوشبو بن گئیں۔ جیسے آج اُس کی محنت رنگ لا گئی ہو۔
محلے کی عورتیں، جو چند روز پہلے بہو کو کوس رہی تھیں، اب جب صحن سے بوڑھے کے قہقہے اور بہو کی خدمت گزارانہ باتیں سنتیں تو حیران رہ جاتیں۔ ایک نے دوسری سے کہا:
"دیکھا، جب عورت کے دل میں ندامت اتر جائے تو گھر جنت بن جاتا ہے۔"
دوسری نے آہ بھری:
"ہاں بہن، اللہ دلوں کو بدلنے پر قادر ہے۔"
بزرگ کا حال بھی بدل گیا تھا۔ پہلے وہ دن بھر چارپائی پر گم سم رہتے، اور رات کو تکلیف کے آنسو بہاتے۔ اب ان کے چہرے پر عجب نور جھلکتا۔ وہ بہو کے ہاتھ سے کھانا کھاتے، وہی بہو ان کے کپڑے دھوتی، دوا وقت پر دیتی، اور ان کی باتیں تحمل سے سنتی۔ گویا وہ بیٹی بن گئی تھی۔
بیٹے کے دل میں بھی سکون اتر آیا۔ وہ جب دفتر سے لوٹتا تو دیکھتا کہ باپ ہنسی خوشی بہو کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔ وہ سوچتا:
"شکر ہے، یہ گھر تباہ ہونے سے بچ گیا۔"
محمد حنیف روز دوسری منزل پر مزدوری کرتا اور ہر دن اس صحن کو دیکھتا۔ وہ اب اینٹیں اُٹھاتے ہوئے بھی مسکراتا۔ کل تک جو منظر اُس کے دل کو زخمی کرتا تھا، آج وہی منظر اُس کے لیے مرہم تھا۔ وہ سوچتا:
"میں تو ایک معمولی مزدور ہوں، مگر اللہ نے مجھے گواہ بنا کر ایک دل کی دنیا بدل دی۔ شاید یہی میرے مقدر کا سب سے بڑا انعام ہے۔"
ایک دن وہ شام ڈھلے مزدوری کے بعد صحن کے قریب سے گزرا۔ بزرگ چارپائی پر بیٹھے تھے، بہو ان کے پاؤں دبا رہی تھی، اور پوتے پاس کھیل رہے تھے۔ بزرگ نے حنیف کو دیکھا، مسکرائے اور کہا:
"بیٹا، تم نے میرے بیٹے کو خبردار کیا، ورنہ میرا حال کوئی نہ جانتا۔ اللہ تمہیں سلامت رکھے۔ تم نے میرا بڑھاپا بچا لیا۔"
حنیف کا دل بھر آیا۔ اُس نے عاجزی سے کہا:
"بابا جی، میں نے کچھ نہیں کیا۔ سب اللہ کا کرم ہے۔"
اس لمحے غروب آفتاب کی سنہری روشنی صحن پر پڑ رہی تھی۔ ہوا میں سکون کی نمی تھی۔ محمد حنیف نے دل ہی دل میں کہا:
"انسان کی اصل عزت اُس کی جوانی کی طاقت میں نہیں بلکہ بڑھاپے کی خدمت میں ہے۔ جو اپنے بڑوں کو سہارا دیتا ہے، اللہ اُس کے نام کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیتا ہے۔"
.jpg)
.png)