غزل
شاعر: شہباز ناصر
کہانی مری مختصر رہ گئی ہے
بتا زندگی تو کدھر رہ گئی ہے
بتا زندگی تو کدھر رہ گئی ہے
بسر ہو خوشی سے مری زندگانی
مقدر میں میرے اگر رہ گئی ہے
مقدر میں میرے اگر رہ گئی ہے
میسر نہیں وصل کا ایک لمحہ
فقط دیکھنے کو نظر رہ گئی ہے
فقط دیکھنے کو نظر رہ گئی ہے
تمھاری محبت میں جان تمنا
کہاں مجھ کو اپنی خبر رہ گئی ہے
کہاں مجھ کو اپنی خبر رہ گئی ہے
یہ انکار کا لفظ جب سے سنا ہے
تب ہی سے مری آنکھ تر رہ گئی ہے
تب ہی سے مری آنکھ تر رہ گئی ہے
غضب ہے نزاکت کمر میں تمھاری
بڑھاپے میں اپنی! کمر رہ گئی ہے
بڑھاپے میں اپنی! کمر رہ گئی ہے
تیرے ہجر میں عمر آدھی گزاری
جو باقی ہے بس مختصر رہ گئی ہے
جو باقی ہے بس مختصر رہ گئی ہے
.jpg)
