افسانہ : آشوبِ چشم تحریر: محمد بلال رفیق
گاؤں کے لوگ ایک عجیب آفت میں گھر گئے تھے۔ پہلے پہل کسی کی آنکھیں سرخ ہوتیں، پھر دھندلا دیکھنا شروع کردیتا۔ علاج کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوتی۔ دوا دارو ناکام، دعائیں بے اثر۔ کچھ دنوں میں آنکھوں کی روشنی ہمیشہ کے لئے رخصت ہوجاتی۔ لوگ کہتے، "یہ آشوبِ چشم ہے، نحوست ہے، عذاب ہے۔"
ابتدا میں چند ہی لوگ اندھے ہوئے، لیکن آہستہ آہستہ پوری بستی خوف کے سائے میں ڈوب گئی۔ ہر گھر میں سرخ آنکھیں، ہر دہلیز پر اندیشہ۔ گاؤں کا ہر فرد جیتا تو تھا مگر اندیشے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا۔
کوئی دوا نہ ملی تو لوگوں نے مولوی کی راہ لی۔ اس نے کہا، "مزار کے پانی میں شفا ہے، اسے آنکھوں پر لگاؤ۔" لوگ ٹوٹ پڑے۔ مگر وہی پانی جسے شفا سمجھا گیا، اندھیرا اور گہرا کرتا گیا۔ کوئی بھی نہیں سمجھ پایا کہ بیماری بڑھ رہی ہے، ہر شخص اپنی آنکھیں بچانے کے لئے وہی زہر لگا رہا تھا۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ کوئی پوچھنے کی ہمت نہ کرتا۔
اندھوں کی بھیڑ میں ایک علی فضل تھا، جو اب تک دیکھ سکتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تو اتر آئی تھی مگر روشنی قائم تھی۔ وہ گاؤں میں آخری آدمی تھا جو دنیا کو آنکھوں سے جان سکتا تھا۔ مگر یہی روشنی اس کے لئے قید بن گئی۔ ہر سمت اندھے، ہر لب پر فریاد، ہر گھر میں اندھیرا اور درمیان میں وہ، جو اب بھی دیکھتا تھا۔
علی رات کو جاگتا، چراغ جلا کر اپنی آنکھوں کو دیکھتا۔ "کیا میں بھی اندھا ہوجاؤں گا؟" یہ سوال اس کے پیچھے ایک سایہ بن کر چلتا۔ جتنا وقت گزرتا، خوف بڑھتا جاتا۔ روشنی اب اس کے لئے نعمت کم اور بوجھ زیادہ تھی۔
آخرکار ایک رات وہ مزار کے پانی کی بوتل کے سامنے بیٹھا۔ ہاتھ کانپ رہے تھے۔ دل میں خوف اور بیزاری کا شور تھا۔ مگر پھر اس کے اندر ایک اور آواز جاگی:
"میں کتنا عرصہ اس ڈر میں جیتا رہا کہ اندھا نہ ہوجاؤں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس خوف نے مجھے پہلے ہی اندھا کردیا تھا۔ انسان ہمیشہ اس ایک سب سے بڑے خوف سے بھاگتا ہے کہ کل جو کچھ جس سے وہ ڈر رہا ہے وہی سچ بن جائے گا۔ مگر جس لمحے وہ سچ بن جائے، وہ خوف وہ ڈر مر جاتا ہے۔ اور اسی ڈر کے مرنے سے انسان آزاد ہوجاتا ہے۔"
وہ پانی آنکھوں پر چھلک دیتا ہے۔ لمحے گزرتے ہیں، مگر روشنی بجھتی نہیں۔ وہ حیران سا رہ جاتا ہے۔ آئینے میں جھانکتا ہے، دیکھتا ہے کہ آنکھیں اب بھی دیکھ رہی ہیں سرخ ضرور ہیں، مگر روشنی باقی ہے۔
اس کے دل میں عجیب سا شک جاگتا ہے۔ "شاید میں بچ گیا ہوں۔ شاید یہ سب وہم تھا۔ شاید یہ پانی اندھا نہیں کرتا۔" وہ بار بار اپنے آپ کو پرکھتا ہے، دن کے اجالے میں، رات کے چراغ کی لو میں، آئینے کے سامنے۔ روشنی موجود ہے، مگر دھندلی۔
پہلا دن امید میں گزرتا ہے۔ دوسرا دن بے چینی میں۔ کبھی دل کہتا ہے کہ اندھا ہونے کا خوف فضول تھا، کبھی آنکھوں کی دھند اسے یاد دلاتی ہے کہ انجام قریب ہے۔ وہ مسلسل اسی کشمکش میں گھرا رہتا ہے: "کیا میں اندھا ہوں یا نہیں؟"
اور پھر تیسرے دن صبح کے اجالے کے ساتھ سب ختم ہوجاتا ہے۔ بینائی یکایک ڈھے جاتی ہے۔ روشنی کا آخری رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اندھیرا اس کے اندر اور باہر چھا جاتا ہے۔
وہ لمحہ خوف کا نہیں ہوتا، بلکہ ایک عجیب سکون کا۔ جیسے برسوں کا بوجھ اتر گیا ہو۔ وہ جان لیتا ہے کہ سب سے بڑا خوف، جب پورا ہوجاتا ہے، تو ڈر مر جاتا ہے۔ اور ڈر کے مرنے کے بعد انسان آزاد ہوجاتا ہے۔
.jpg)
