افسانہ : تنہائی کا وائرس‎ تحریر: محمد بلال رفیق

افسانہ : تنہائی کا وائرس‎  
تحریر: محمد بلال رفیق

افسانہ : تنہائی کا وائرس‎  تحریر: محمد بلال رفیق
دن بھر دھوپ تیز رہی۔ آسمان صاف تھا اور چھت پر پھیلے کپڑے خاموشی سے سوکھتے رہے، جیسے وقت اپنی رفتار سے گزر رہا ہو۔ مگر میرے لیے یہ دن بھی باقی دنوں سے مختلف نہ تھا۔ میں حسبِ معمول کمرے میں بند بیٹھا رہا۔ یہ تیسری بار تھا کہ میں نے دروازہ نہیں کھولا۔ باہر سے کسی نے آواز دی تھی، شاید کوئی ہمسایہ، شاید کوئی جان پہچان والا۔ آواز میں کوئی خاص اصرار نہیں تھا اور میں جانتا تھا کہ وہ کچھ دیر بعد خود ہی چلا جائے گا، کیونکہ سچ یہ تھا کہ میرے لیے کوئی واقعی نہیں آیا تھا۔
کمرے کے ایک کونے میں، الماری کے پیچھے، ایک چھوٹا سا جالا بن چکا تھا۔ وہ جگہ عام نگاہوں سے چھپی ہوئی تھی، جیسے جان بوجھ کر تنہائی کے لیے منتخب کی گئی ہو۔ وہاں ایک مکڑی پچھلے ہفتے سے موجود تھی۔ خاموش، باریک پاؤں کے ساتھ آہستہ آہستہ دھاگے بُنتی رہتی۔ اس کی حرکت میں ایک ٹھہراؤ تھا، ایک صبر، جیسے اسے کہیں پہنچنے کی جلدی نہ ہو۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا کہ وہ میری حرکات کو غور سے دیکھ رہی ہو۔ میں کب چائے پیتا ہوں، کب بستر پر لیٹتا ہوں، کب رات کے کسی پہر آنکھیں بند کیے بغیر چھت کو تکتا رہتا ہوں اور کب خاموشی سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
ابتدا میں اس کی موجودگی نے مجھے الجھن میں مبتلا رکھا۔ دل میں آیا کہ اسے مار دوں، مگر دل نے اجازت نہ دی۔ شاید اس لیے کہ وہ بھی اسی طرح اس کمرے میں قید تھی جیسے میں۔ ایک دن ایسا بھی آیا جب میں نے اس سے بات کی۔ بے اختیار ہنسا بھی۔ اس لمحے مجھے یوں لگا جیسے وہ خاموشی کی زبان میں جواب دے رہی ہو۔ الفاظ کے بغیر ایک ربط قائم ہو گیا تھا، ایسا ربط جو شاید صرف تنہا لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔
کل اماں کی سالگرہ تھی۔ اس خیال نے دل میں ایک خالی پن سا بھر دیا۔ نہ کیک تھا، نہ چراغ، نہ کوئی مبارک باد دینے والا۔ صرف میں تھا، چار دیواری تھی اور وہ مکڑی، جو خاموشی سے اپنے جالے میں موجود تھی، جیسے کسی غیر محسوس تقریب کی گواہ ہو۔
اسی دوران ٹی وی پر خبر چلی کہ شہر میں وبا ایک بار پھر بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی ہدایت دی جا رہی ہے۔ یہ سنتے ہی میرے ہونٹوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ آ گئی۔ کیا انسان خود سے بھی فاصلہ رکھ سکتا ہے۔ میں تو کب سے خود سے الگ ہو چکا تھا، بغیر کسی اعلان کے، بغیر کسی ہدایت کے۔
اسی رات غصہ اچانک اندر سے ابھرا۔ اپنے آپ پر، اس کمرے پر اور اس دنیا پر جو کہیں باہر چل رہی تھی۔ میں نے جھاڑو اٹھائی اور زور سے جالا گرا دیا۔ دھاگے ٹوٹ گئے اور وہ ترتیب بکھر گئی جو دنوں میں بنی تھی۔ مکڑی نیچے گری اور میں نے ایک انگلی سے اسے بآسانی مار دیا۔ اس لمحے کوئی آواز نہ آئی، نہ احتجاج، نہ شور۔ سب کچھ ایک دم ختم ہو گیا۔
اب دو دن گزر چکے ہیں۔ کمرہ ویسا ہی ہے۔ دیواریں، فرش، کھڑکی، سب اپنی جگہ موجود ہیں، مگر کونے میں ایک خلا ہے۔ اب وہاں کوئی سایہ نہیں آتا، کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ وہ جگہ خالی ہونے کے باوجود زیادہ نمایاں ہو گئی ہے۔کل میں نے چائے بنائی۔ عادت کے برخلاف دو کپ رکھے۔ ایک اپنے لیے اور ایک اس کے لیے، جس کا نام میں نہیں جانتا، جسے میں نے خود مار دیا، صرف اس لیے کہ وہ مجھے بہت اپنا لگنے لگی تھی۔ وہ چائے ٹھنڈی ہو گئی، مگر میں نے دوسرا کپ ہٹایا نہیں۔
آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تنہائی کبھی باہر سے نہیں آتی۔ یہ وہ مکڑی ہے جو دل کے کسی کونے میں خاموشی سے جالا بناتی ہے۔ ہم اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں، بوجھ سمجھتے ہیں، اور ایک دن غصے یا خوف میں اسے مار دیتے ہیں۔ تب جا کر احساس ہوتا ہے کہ وہ تو ہمیں دوست سمجھتی تھی، اور اس کے مرنے کے بعد اصل خاموشی شروع ہوتی ہے۔
Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !