پنجاب کابینہ کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کی منظوری، سفارش وفاقی حکومت کو ارسال
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک مذہبی جماعت کے احتجاج کا ایسے وقت کوئی جواز نہیں جب غزہ میں جنگ بندی ہو چکی ہے۔‘‘ ان کے مطابق احتجاج کے نام پر سڑکیں اور راستے بند کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی ترجیح امن و امان کی بحالی اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے، اور اس مقصد کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق مذہبی جماعت کے ساتھ کئی بار مذاکرات کیے گئے اور انہیں بتایا گیا کہ فلسطینی عوام جنگ بندی کے بعد خوشیاں منا رہے ہیں۔
عظمٰی بخاری نے کہا کہ ’’پولیس اور صفائی کے محکمے کی گاڑیاں کیا غزہ کی آزادی میں رکاوٹ تھیں جنہیں مارچ کے دوران نشانہ بنایا گیا؟‘‘ انہوں نے بتایا کہ جمعے کی نماز کے بعد احتجاج کی کال دی گئی تھی مگر عوام اور تاجروں نے اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی بہانے سے ملک کو مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ’’مذاکرات کے دوران ذاتی مفاد پر مبنی مطالبات کیے گئے اور مذہبی تشدد میں ملوث افراد کی رہائی کا تقاضا کیا گیا۔‘‘
وزیر اطلاعات کے مطابق شہید ایس ایچ او کو 26 گولیاں لگیں، 69 پولیس اہلکار مستقل معذور ہو چکے ہیں جبکہ 200 اہلکار شدید زخمی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر ڈیڑھ ہزار سے زائد پولیس اہلکار ٹی ایل پی کے احتجاجی مظاہروں کے دوران زخمی ہوئے۔
.jpg)