شاعر:ناظم علی
آنکھ سے آنکھ ملائیں ، جائیں
اشک جتنے ہیں، گرائیں ، جائیں
چاک پہ خاک گھمائیں، جائیں
اک نئی شکل بنائیں، جائیں
میں رفو گر تو نہیں ہوں لیکن
زخم جتنے ہیں، سلائیں، جائیں
دل کے دروازے کھلے رہتے ہیں
آپ کی مرضی ہے آئیں، جائیں
یعنی منزل ہے کہیں اور اگر
آپ خود ہاتھ چھڑائیں ،جائیں
یہ دیئے پھر سے جلاؤں گا میں
مت کہیں دور ہوائیں ، جائیں
آپ اک شام مرے کمرے سے
اس اداسی کو بھگائیں، جائیں
عشق گرداب پھنسی کشتی کو
بس کنارے سے لگائیں، جائیں
دیکھ پائیں گے نہ حسن یوسف
آپ بھی ہاتھ کٹائیں ،جائیں
آج محفل ہے سجائی ناظم
شاعری اپنی سنائیں، جائیں
.jpg)
