!آئین پاکستان کی وقعت

 از قلم : امین مگسی 

آئین کسی بھی ریاست کا وہ بنیادی ڈاکومنٹ ہوتا ہے جس پر ریاست کے وجود کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر اس بنیادی ڈاکومنٹ کو نکال دیا جائے تو ریاست کے لازمی ستون کا توازن برقرار رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور دھیرے دھیرے ریاست اپنا وجود کھونے لگتی ہے۔ 


آئین کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ آئین ریاست اور شہریوں کے درمیان وہ معاہدہ ہے جس پر عمل کرنا فرض ہوتا ہے اور اس معاہدے کے تحت جہاں شہریوں سے وفاداری کا مطالبہ ہوتا ہے وہاں ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بھی پابند ہوتی ہے۔ 


پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جس کا بنیادی ڈاکومنٹ " آئین  " نو سال بعد 1956 میں وجود میں آتا ہے۔ مطلب نو سال تک یہ ملک اپنے بنیادی ڈاکومنٹ کے بغیر چلتا رہا ہے جسے عام الفاظ میں آپ جنگل قانون کہہ سکتے ہیں۔ پہلا آئین بنتے ہی دو سال بعد 1958 یعنی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں معطل کردیا گیا اور دوسرا آئین ایک مرتبہ پھر ناکام کوشش کے بعد 1962 میں وجود میں آیا۔ دوسری مرتبہ آئین کی کوشش بھی چند سال بعد ہی اختتام پزیر ہوئی یہ آئین بھی 1969 میں ایک مرتبہ پھر معطل کردیا گیا۔ اور تیسری مرتبہ 1973 میں مستقل آئین بنا جسے بھٹو کا تحفہ بھی کہا جاتا ہے۔


آئین پاکستان کی حیثیت ایسی ہوتی ہے کہ اگرچہ کسی بھی جماعت ، تنظیم یا کسی ادارے کے بنیادی ڈاکومنٹ کی خلاف ورزی کی جائے تو وہ فرد اس جماعت میں رہنے کا ایک دن بھی قابل نہیں ہوتا اسی طرح آئین پاکستان کی کسی ایک شق کی بھی مخالفت کرنے والے فرد پر آئین پاکستان کے اندر ہی شق نمبر 6 کے تحت غدار قرار دیا گیا ہے۔ اور غداری کی سزا پھانسی ہی ہے۔


یہی وجہ ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ ( اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس عطا فرمائے آمین ) نے ڈکٹیٹر مشرف کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے لکھا کہ اگر ڈکٹیٹر مشرف پھانسی سے پہلے مر جائے تو اسکی لاش کو ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئین کی کسی ایک شق کی خلاف ورزی بھی کتنا بڑا جرم ہے۔ مگر ایسے ججز اب اس دنیا میں نہیں رہے جو اس بہادری کے فیصلے دیتے تھے اور آئین کے تحفظ کیلئے کسی رعایت کی گنجائش نہیں نکالتے تھے۔ 


اگر ہم پاکستان میں حقوق کا موازنہ کریں تو ابھی تک شہریوں کو اپنے اس بنیادی معاہدہ کے مطابق بنیادی آئینی حقوق بھی میسر نہیں ہیں جو ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور حیلے بہانے سے آئین پاکستان کی صریح خلاف ورزیاں سرزد ہورہی ہیں جس میں تمام سیاسی جماعتیں بھی کسی حد تک ملوث اور بینفشری ہیں۔ کیونکہ آئین ہی عام شہری کو وہ احترام دلاتا ہے جو اسے دنیا کے کسی خطہ میں پیدا ہونے کے بعد فطری طور حاصل ہونا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق ہی اس ملک کی اشرافیہ کیلئے بہت بڑا مسئلہ بن چکے ہیں جیسا کہ بولنے اور اپنے حقوق کی بات کرنے کی آزادی ، اظہار رائے کی آزادی ، جینے کی ازادی، بغیر کسی وجہ و جرم کے حبس بیجا میں نہ رکھنے کا تحفظ ، شکوک کی بنیاد پر بنیادی آزادی سلب نہ کرنے کا تحفظ وغیرہ یہ سب عام شہری کے حقوق ہیں۔ 


دوستی طرف اگر ہم یورپی ممالک کی طرف دیکھیں تو انکے قوانین اور نظام میں اور پاکستانی نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں Tort Laws پر بھی عملدرآمد ہوتا ہے۔ 


ایسے Tort Laws انسان کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتے ہیں جیسے کسی کی عزت کا جنازہ نکالنے کیلئے میڈیا پر غلط اور جھوٹی رپورٹنگ پر ہرجانے کا مقدمہ ، کسی سرکاری ملازم جو عوام کا خادم ہوتا ہے اسکا اپنی ڈیوٹی سرانجام نہ دینا یا ڈیوٹی سرانجام دینے میں معمولی غفلت برتنے پر ہرجانے ، کسی بھی معمولی چیز جس میں واضح طور احکامات ہوں اسکی جان بوجھ کر خلاف ورزی کرنا تو سنگین جرم ہے جبکہ معمولی غفلت برتنا بھی ہرجانے کا سبب بن سکتا ہے۔ 


کسی پر بیجا الزامات لگا کر سالوں جھوٹے مقدمات میں عدالت میں گھسیٹنے ہر دعوی ، کسی کو بیجا تنگ کرنے پر ہرجانے کا دعویٰ ، کسی کو ذہنی ٹارچر کرنے پر دعوی ، سرکاری آفسیر کا وقت پر اپنے دفتر نہ پہنچنے پر کسی شہری کے نقصان کا ازالہ ، الغرض آپ اگر کسی  Coffee شاپ چلے جائیں اور اس پر Coffee کے گرم ہونے کا ٹیمپریچر جتنا لکھا ہوگا اگر اس وہ coffee اس ٹیمپریچر سے گرم ہونے کی وجہ سے جسم پر گر کر جلا دے تو اس پر بھی بھاری جرمانے عائد ہوسکتے ہیں۔ 


اب ذرا پاکستان کا ہر شہری اس ملک کا شہری ہونے اور کسی ترقی یافتہ ملک کے شہری ہونے کا تصور کرے تو آپکو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستانی کس عذاب میں مبتلا ہیں۔ جہاں رات کو وردی میں گھس کر آپکی چادر و چار دیواری پامال کرتے ہوئے ،ماں، بیوی ، بہن ، بیٹی کے دو پٹے اتارتے ہوئے ، آپکی عورتوں کو مکے ٹھڈے مارتے ہوئے آپکو وہاں سے اٹھا کر لے جائیں۔ ہفتوں مہینوں کسی بند کوٹھڑی میں پھینک دیں جہاں جانور بھی اذیت سے مر جائے اور کچھ عرصہ بعد آپکو یہ کہہ کر چھوڑ دیں کہ جائیں آپ بیگناہ ہیں مگر آگے بھی احتیاط کرنا ہم کسی بھی وقت آپکو اس ذلالت سے بھی زیادہ ذلیل کرسکتے ہیں۔ اور جب آپ اس ذلالت ، تکلیف اور ذہنی کوفت کے بعد گھر پہنچ جائیں تو آپکے گھر والے کیا کرتے ہیں۔


جیسے ہی آپ ذلیل ہونے کے بعد گھر پہنچتے ہیں آپکے گھر والے پہلے آپکو ہار پہنائیں گے ، پھر زندہ سلامت پہنچے پر خوشی منائیں گے ، علاقے کی خواتین جمع ہوکر قرآن خوانی کریں گی ، شکرانے کے نوافل پڑھے جائیں گے۔ یہ سب اس بات کی خوشی میں ہورہا ہوتا ہے کہ بندہ ذہنی مریض ہونے کے باجود کم از کم زندہ گھر واپس آگیا ہے اور ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ 


یہی وہ ذہنی پسماندگی ہے یہی وہ حالت ہے جس نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے اور سب سے زیادہ اس کوفت میں باشعور تعلیم یافتہ نوجوان مبتلا ہے۔ شعور نے نوجوان کو ایک ایسے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے جہاں وہ کتابوں میں لکھا پڑھ پڑھ کر خوش تو ہوتا ہے مگر حقیقت میں اسکے برعکس ہورہا ہوتا دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ دیگر خواہشات و وسائل اپنی جگہ جب بنیادی آئینی حقوق کی دھجیاں اڑاتے دیکھتا ہے تو وہ حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ آخر میں کس عذاب میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ کس جنگل کے قانون سے وابستہ پڑا ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے ہی قانون شکن بنے ہوئے ہیں۔جہاں آئین کا مقصد شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا نہیں بلکہ شہریوں کو ذلیل کرنا ہے مگر ایسے میں ایک طاقتور طبقہ بھی ہے جو آئین کا پابند ہے نہ کسی قانون کو تسلیم کرتا ہے اور غضب خدا کا کہ اس طاقتور طبقہ سے کوئی پوچھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔ 


جب یہ مقام آتا ہے تب کچھ شہری ذلت بھری زندگی کو اپنی قسمت سے جوڑ لیتے ہیں اور اوپر سے ایک مخصوص مذہبی طبقہ ان کی ذہن سازی کرتا رہتا ہے کہ بحیثیت مسلمان تمہیں اس بات پر ایمان لانا واجب ہے کہ تمہاری زندگی میں جو بھی ذلالت ہے یہ صرف اور صرف تمہارے ذاتی گناہوں کی بدولت ہے جس کا حل صرف یہی ہے کہ تم کچھ وقت کیلئے گھر سے نکلنا ہوگا ، گھر بار چھوڑ کر کچھ عرصے بیجا کی مشقت کا حصہ بننا ہوگا اس طرح تمہارے ذاتی گناہ معاف ہو جائیں گے اور تم اس عذاب سے نجات پاؤ گے۔ مخصوص مذہبی طبقہ ایسے وعظ نصیحت کرکے اسے اپنے بنیادی آئینی حقوق سمجھنے ، انکے لئے جدوجہد کرنے سے غافل کردیتا ہے جو غافل ہوگیا وہ ہر چیز پر سمجھوتہ کرلیتا ہے اور اسے قسمت کا نام دیتا ہے۔ 


جبکہ وہ باشعور طبقہ جو اسے خدا کے عذاب سے منسلک کرنے کے بجائے طاقتور طبقے اور اشرافیہ کی لوٹ مار ، آئین شکنی ، اختیارات کے ناجائز استعمال گردانتا ہے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے ، ہر قانونی راستہ اختیار کرتا ہے مگر انصاف فراہم کرنے والے ڈرپوک ججز سوائے چند ایک بہادر ججز کے جب پہلے سے انصاف کیساتھ کھلواڑ کرنے لگتے ہیں شہریوں کے تحفظ کے بجائے دلالی پر اتر آتے ہیں تو باشعور طبقہ اتمام حجت کے بعد اپنا راستہ اپنے انداز سے چن لیتا ہے۔ تب وہ ذلالت بھری زندگی پر جدوجہد کو ترجیح دیتا ہے، پھر وہ اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ اس ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ، شہریوں کو انسانیت کا حقیقی درجہ دلوانے کی جدوجہد کرنے لگتا ہے۔


جب ریاست اپنے ہی معاہدہ کے اپنے حصے پر پورا نہیں اترتی تو ریاستیں بکھرنے لگتی ہیں۔ صرف چند اشخاص کی ذاتی خواہشات کی تکمیل میں ریاستوں کے شیرازے بکھرنے لگتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یورپ بھی ایسی جہالت اور ذہنی پسماندگی سے گزر رہا تھا مگر وہاں کے باشعور لوگوں نے جدوجہد کی ، اور ان بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا جس کے بعد یورپ میں اب آئین و قانون کی بالادستی ہے۔ ایک طرف ترقی یافتہ ممالک میں آئین کی حکمرانی تو دوسری طرف پاکستان میں آئین کے نام پر شہریوں کی تذلیل ، یہی چیز ناانصافیوں کو جنم دیتی ہے اور حالات قابو سے نکل جاتے ہیں۔ 


آئین پاکستان موجودہ حالت میں کتابوں کے علاؤہ کہیں موجود نہیں ہے عملی طور ہم ایک غیر آئینی ریاست میں جی رہے ہیں۔ ریاستی معاہدے کو  چند لوگ اپنی ذاتی خواہشات کیلئے مکمل طور پامال کرچکے ہیں۔ موجودہ حالات میں ملک میں جنگل کا قانون رائج ہے جسے دیگر الفاظ میں کہا جاتا ہے Might is Right.

Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !