پاکستان میں ڈیجیٹل آزادی پر پابندیاں: ایک تشویشناک رجحان

 پاکستان میں ڈیجیٹل آزادی پر پابندیاں: ایک تشویشناک رجحان

تحریر: کاشف بلوچ 


پاکستان کا ڈیجیٹل میدان تیزی سے ایک ایسا میدان جنگ بنتا جا رہا ہے جہاں معلومات تک رسائی اور اظہارِ رائے کی آزادی کو غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے۔ حالیہ دنوں میں وی پی این (VPN) کے خلاف کریک ڈاؤن، اچانک سوشل میڈیا کی بندش اور حکومتی بیانات میں ابہام نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ ریاست انٹرنیٹ پر اپنی گرفت سخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انٹرنیٹ تک رسائی پر حکومتی پابندیوں کو اکثر قومی سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے تحفظ کے نام پر جائز قرار دیا جاتا ہے، مگر ان اقدامات میں شفافیت کی کمی نے عوام میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو وقتاً فوقتاً بند کیا جاتا رہا ہے، جس سے اہم قومی و سماجی معاملات پر عوامی مکالمے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اب وی پی این پر پابندی کی کوششیں بھی اس خدشے کو تقویت دے رہی ہیں کہ حکومت عوام کی نگرانی اور کنٹرول چاہتی ہے، نہ کہ ڈیجیٹل سکیورٹی کو بہتر بنانا۔

سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ حکومتی بیانات میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف حکام آزادیٔ اظہار اور معلومات تک کھلی رسائی کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں، تو دوسری جانب ویب سائٹس کی بندش، سوشل میڈیا پر پابندیاں اور نگرانی میں اضافہ ان دعوؤں کی نفی کرتا ہے۔ اس تضاد نے عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور اب شہریوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے اور کون سی بات ریاستی پروپیگنڈے پر مبنی ہے۔

ان مشکلات کے باوجود، پاکستان کے ڈیجیٹل حقوق کے محافظ ادارے اور کارکن آن لائن سنسرشپ کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ ان تنظیموں نے ان پابندیوں کو چیلنج کرنے کے لیے عدالتی درخواستیں دائر کی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی آواز اٹھائی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ عدلیہ نے بھی اس معاملے کا نوٹس لینا شروع کیا ہے اور بعض پابندیوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، مگر جب تک پالیسی ساز ادارے جواب دہ نہیں ہوتے، یہ جدوجہد جاری رہے گی۔

ایک محدود ڈیجیٹل ماحول نہ صرف سیاسی گفتگو کو دباتا ہے بلکہ معیشت اور تعلیم کے مواقع پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ چھوٹے کاروبار، جو سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز پر انحصار کرتے ہیں، ان پابندیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، جبکہ طلباء اور محققین کو عالمی معلومات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مزید برآں، ایسا ماحول جہاں سنسرشپ غالب ہو، وہاں جدت، اختراع اور غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے۔

اس مسئلے کا حل ایک جامع اور مربوط حکمتِ عملی کے ذریعے ممکن ہے۔ حکومت، سول سوسائٹی، اور ٹیکنالوجی ماہرین کے درمیان کھلا مکالمہ ضروری ہے تاکہ ایک شفاف انٹرنیٹ گورننس فریم ورک تشکیل دیا جا سکے۔ بین الاقوامی دباؤ بھی اہم ہے تاکہ حکام کو ڈیجیٹل حقوق کی خلاف ورزیوں پر جواب دہ بنایا جا سکے۔ آخرکار، پاکستان میں ڈیجیٹل نظام پر عوامی اعتماد کی بحالی اس وقت ہی ممکن ہے جب انٹرنیٹ کی آزادی کو سیاسی مفادات پر ترجیح دی جائے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل آزادیوں پر پابندیاں ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ انٹرنیٹ تک رسائی صرف ایک سہولت نہیں، بلکہ ایک بنیادی حق ہے جس کا تحفظ ضروری ہے۔ اگر فوری اقدام نہ کیا گیا تو ریاست اپنے ڈیجیٹل شہریوں سے مزید دور ہو جائے گی اور جمہوری اقدار کمزور ہو جائیں گی۔

Restrictions on digital freedom in Pakistan: A worrying trend


Join Urdu Insight WhatsApp Channel

📢 Join our WhatsApp Channel for latest news and updates! تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ابھی اُردو انسائیٹ کے وٹس ایپ چینل کو فالو کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website "www.urduinsight.live" uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !