تحریر عاقب جتوئی
کمرہ نیم تاریک تھا۔ کھڑکی کے پردے ادھ کھلے تھے اور باہر سے آتی روشنی ایک عجیب سی سنجیدہ فضا بکھیر رہی تھی۔ کھڑکی کے پاس رکھی ہوئی کرسی پر احمد بیٹھا تھا، ایک عام سا سرکاری ملازم، مگر اس کے چہرے کی لکیروں میں ایک غیر معمولی کشمکش صاف جھلک رہی تھی۔ کاغذوں کے ڈھیر، قلموں کے غلاف اور فائلوں کے درمیان دبکا ہوا وہ سوچ رہا تھا کہ ترقی کے زینے آخر کیسے طے کیے جائیں۔
اچانک دروازہ چرچرا کر کھلا۔ اندر نادیہ آئی، احمد کی بیوی۔ نادیہ ایک خوش شکل، سلیقہ شعار عورت تھی۔ ہاتھ میں چائے کی ٹرے، ہونٹوں پر مدھم سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں ایک انجانی تھکن۔
"آپ پھر سوچوں میں گم ہیں؟ لگتا ہے دفتر کا بوجھ آپ کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔" نادیہ نے مسکرا کر کہا۔
احمد نے گہری سانس لے کر جواب دیا: "نادیہ! یہ دنیا بڑی عجیب ہے۔ یہاں محنت سے زیادہ تعلقات کی ضرورت ہے۔ ترقی انہی کو ملتی ہے جو شارٹ کٹ ڈھونڈ لیتے ہیں۔"
نادیہ نے چائے رکھتے ہوئے کہا: "مگر محنت ہی اصل دولت ہے۔ آپ کی دیانت ہی آپ کا فخر ہے۔"
احمد نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا: "دیانت، فخر… یہ الفاظ اچھی کہانیوں میں سجتے ہیں۔ اصل دنیا میں ترقی اُنہیں ملتی ہے جو کھیل کے اصول بدل دیتے ہیں۔"
یہ کہتے ہوئے احمد کی آنکھوں کے سامنے باس کا چہرہ ابھرا — جناب ظفر قریشی۔ ایک لمبے قد کا، دبنگ شخصیت کا مالک شخص، جس کے دفتر میں جاتے ہی ہوا کا رخ بدل جاتا تھا۔ وہ فیصلے بھی کرتا تھا اور قسمتیں بھی لکھتا تھا۔
ہفتے کے آخر میں احمد نے اپنی بیوی سے کہا: "نادیہ! باس کو کھانے پر بلایا ہے۔ بس تمہارا تعاون چاہیے۔ اچھا سا کھانا، تھوڑی خوش مزاجی… باقی سب میں سنبھال لوں گا۔"
نادیہ چونک گئی۔ "باس کو گھر پر بلانا؟ یہ اچانک فیصلہ کیوں؟"
"یہی وقت ہے، نادیہ! ترقی کا دروازہ دستک دے رہا ہے۔ اگر یہ موقع گنوا دیا تو باقی عمر اسی کرسی پر سڑنا ہے۔" احمد نے جوش سے کہا۔
نادیہ نے لب بھینچ لیے۔ دل نے بہت کچھ کہا مگر زبان خاموش رہی۔
رات کو دسترخوان سجا۔ مہمان آیا۔ ظفر قریشی اپنی مخصوص کرخت مسکراہٹ کے ساتھ کرسی پر بیٹھا۔ نادیہ نے کھانے کے برتن ترتیب سے رکھے۔ اس کی شرم و حیا آنکھوں سے عیاں تھی مگر قریشی کی نظریں کچھ اور تلاش کر رہی تھیں۔
"واہ بھئی احمد! بیگم صاحبہ کے ہاتھوں میں تو کمال ہے۔ مزہ ہی آ گیا۔" قریشی نے کہا۔
احمد مسکرا کر بولا: "جناب، آپ کا حکم ہو تو ہر دن یہ لذت پیش کی جا سکتی ہے۔"
قریشی نے معنی خیز نظر نادیہ پر ڈالی اور قہقہہ لگا دیا۔ نادیہ کے کانوں میں یہ جملہ تیر کی طرح لگا۔
اگلے دن احمد دفتر میں بیٹھا تھا۔ باس نے اسے کمرے میں بلایا۔ "احمد، تم نے کل کمال مہمان نوازی کی۔ بیگم صاحبہ کو میرا سلام کہنا۔ اور ہاں… اگلے ہفتے تم دونوں میرے گھر آ رہے ہو۔ کوئی انکار نہیں چلے گا۔"
احمد کے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری۔ دل ہی دل میں اس نے سوچا: یہی تو وہ لمحہ ہے جس کے لیے میں نے سب منصوبہ بنایا تھا۔ اب ترقی دور نہیں۔
گھر پہنچا تو نادیہ کو خبر دی۔ "ظفر صاحب نے ہمیں اپنے گھر بلایا ہے۔ یہ اچھا اشارہ ہے۔" نادیہ نے اثبات میں سر ہلا دیا مگر آنکھوں میں ایک انجانی وحشت تیر گئی۔
ظفر قریشی کا گھر روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ قہقہوں کی بازگشت اور قیمتی خوشبوؤں کا جادو فضا میں گھلا ہوا تھا۔ نادیہ نے سرخ دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ اس کی نظریں زمین پر گڑی تھیں، مگر قریشی کی نظریں بار بار اس پر آ ٹھہرتی تھیں۔
رات ڈھلتی گئی۔ قریشی نے احمد کو کونے میں لے جا کر کہا: "دیکھو احمد! ترقی چاہیے تو کچھ قیمت تو دینی ہی پڑے گی۔ باقی سب میں سنبھال لوں گا، تم فکر نہ کرو۔"
احمد کے ہونٹ خشک ہو گئے۔ لمحہ بھر کو اس نے بیوی کے چہرے کی طرف دیکھا — وہ معصوم چہرہ جو برسوں کی رفاقت کی پہچان تھا۔ مگر اس کے دل میں لالچ نے محبت پر غالب آنا شروع کیا۔
"اگر یہ سب تمہیں چاہیے، تو… ٹھیک ہے۔ میں درمیان سے ہٹ جاتا ہوں۔" احمد نے آہستگی سے کہا۔
یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔ کمرے میں نادیہ اور قریشی آمنے سامنے رہ گئے۔
نادیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ ایک لمحے کو خاموش رہی، پھر مضبوط لہجے میں بولی: "ظفر صاحب! ترقی کی یہ قیمت میں ادا نہیں کر سکتی۔ میرا شوہر بزدل ہو سکتا ہے مگر میں اپنی عزت کو سستا نہیں بیچوں گی۔"
یہ کہہ کر اس نے دروازہ زور سے بند کیا اور باہر نکل آئی۔ احمد کے سامنے کھڑی ہو کر بولی: "احمد! تم نے آج اپنی بیوی کو نہیں، بلکہ اپنے وقار کو بیچ دیا ہے۔ دولت اور ترقی کے پیچھے تم اپنی مردانگی، اپنی غیرت سب کچھ قربان کرنے جا رہے تھے۔ مگر یاد رکھو، عزت ایک بار جاتی ہے تو کبھی واپس نہیں آتی۔"
احمد ساکت کھڑا رہ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ باس کی ہنسی اندر سے گونج رہی تھی، مگر باہر خاموشی چھا گئی۔
یوں ایک خواب، ایک لالچ، ایک فریب سب بکھر گئے۔ احمد ترقی کے زینے پر قدم رکھنے سے پہلے ہی زمین بوس ہو گیا۔ نادیہ نے عزت بچا لی، مگر شوہر کا وقار گنوا بیٹھا۔ اور یہ کہانی معاشرے کے اس المیے کی عکاسی کرتی ہے جہاں انسان اپنی محنت پر بھروسہ چھوڑ کر شارٹ کٹ کے پیچھے بھاگتا ہے، مگر انجام رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا
.jpg)
.png)